مقالہ جات

کيا عمر فاروق کا نکاح امام علی (ع) کی بيٹی سے ہوا تھا؟

مرحوم محدث قمی لکھتے ہیں: بعض مؤرخین کے مطابق، ام کلثوم حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) ہی ہیں۔ اور عمر کے ساتھ ام کلثوم کا نکاح درج ذیل کتب میں نقل ہوا ہے: الطبقات الكبرى، ج ۸، ص ۴۶٢- ۴۶۵؛ تاريخ بغداد، ج ۶، ص ۱۸٢؛ اسد الغابة، ج ۵، ص ۶۱۴۔ لیکن بعض بزرگوں نے اس نکاح کی تردید کی ہے۔ (۱)

مزید وضاحت:

ام کلثوم کے ساتھ عمر بن خطاب کے نکاح، یا عمر کے توسط سے ام کلثوم کا رشتہ مانگے جانے کے بارے میں علمائے اسلام اور مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے:

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ام کلثوم امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیٹی نہیں بلکہ آپ (ع) کی سوتیلی بیٹی تھیں۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ عمر نے ام کلثوم کا رشتہ مانگا تھا اور یہ بات یہیں ختم ہوئی تھی۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ نکاح ناکام رہا اور شادی نہیں ہوئی۔

بعض کہتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (ع) نے رضا و رغبت سے یہ رشتہ دیا اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ عمر نے آپ (ع) کو دھمکیاں دیں اور مجبور کیا۔

بعض اہل تسنن مؤلفین نے امامت کی بحث میں اس موضوع کو دستاویز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ: یہ واقعہ ان امور میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امام امیرالمؤمنین علیہ السلام عمر کے کردار اور کارکردگی سے خوشنود اور راضی تھے اور ان کی حکومت کی تائید کرتے تھے اور انہیں اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تھا۔ جیسا کہ سنی متکلم "باقلانی” نے کہا ہے۔

تفصیلی جواب:

واقعے کی روایات

جن امور نے اس واقعے کو پیچیدہ بنایا ہے ان ہی میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ اور سنی نے اس واقعے کو اپنی حدیثی منابع میں ذکر کیا ہے، اگرچہ اہل سنت اس کو زیادہ تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ نے اس کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے یا پھر اس کو ایک حکایت ـ مخالفین کو اپنے عقائد کا ثبوت دینے ـ کے طور پر اہل سنت سے نقل کیا ہے۔ اہل سنت کی کتب میں منقولہ بعض روایات ملاحظہ ہوں:

۱۔ ابن سعد کہتا ہے: "۔۔۔ عمر بن خطاب نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب کے ساتھ نکاح کیا۔ حالانکہ وہ ایک غیر بالغ بچی تھیں اور عمر کے پاس ہی تھیں حتی کہ عمر مارے گئے اور انھوں نے عمر کے لئے دو بچوں زید اور رقیہ کو جنم دیا”۔ (٢)

٢۔ حاکم نیشابوری اپنی سند سے علی بن حسین (ع) سے نقل کرتا ہے: عمر بن خطاب نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، کا رشتہ مانگنے کے لئے آپ (ع) سے رجوع کیا اور کہا: اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کرائیں۔

علی علیہ السلام نے فرمایا: میں اس کو اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر سے بیاہنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

عمر نے کہا: آپ کو انہیں مجھ سے بیاہنا پڑے گا۔ ۔۔۔ اور اس کے بعد علی علیہ السلام نے ان کا نکاح عمر سے کرلیا۔

اس کے بعد عمر مہاجرین کے پاس آئے اور کہا: کیا تم لوگ مجھے مبارکباد نہیں کہو گے؟

مہاجرین نے کہا: مبارکباد کس لئے؟

عمر نے کہا: اس لئے کہ میں ام کلثوم بنت علی و فاطمہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوا ہوں اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے کہ "روز قیامت ہر نسب اور ہر سبب منقطع ہوگا سوائے میرے سبب و نسب کے۔ اسی بنا پر میں چاہتا ہوں کہ میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) درمیان نسب و سبب ہو”۔ (۳)

۳- بیہقی نے بھی اپنی سند سے علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے: عمر نے نکاح کے بعد مہاجرین سے کہا کہ انہیں مبارک باد دیں کیونکہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا تھا کہ ہر سبب و نسب آپ (ص) کے نسب و سبب کے سوا، روز قیامت منقطع ہوگا۔ (۴)

یہ واقعہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد ج۶ ص ۱۸٢ میں، ابن عبدالبر نے الاستیعاب ج ۴ ص ۱۹۵۴ میں، ابن اثیر نے اسدالغابہ ج ۵ ص ۶۱۴ میں اور ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ کی ج ۴، ص ۴۹٢ میں نقل کیا ہے۔

اسناد کا تحقیقی جائزہ

۱۔ بخاری اور مسلم نے اس روایت کو نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے اور اس کو اپنی اہم مشہور اور اہم کتب میں نقل نہیں کیا ہے۔ اور کتنی زیادہ ہیں وہ روایات جو صحیحین میں نقل نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کی گئی ہیں۔

٢۔ یہ روایت صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر معتبر کتب میں نقل نہیں ہوئی ہے جن میں موطأ، سنن نسائی، مسند ابن حنبل اور سنن ابن ماجہ شامل ہیں۔

ہر سند کا الگ الگ جائزہ

حاکم نیشابوری نے اس کو صحیح قرار دیا ہے لیکن ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی سند کو منقطع قرار دیا ہے؛ جبکہ بیہقی نے اس روایت کی سند کو مرسل قرار دیا ہے۔ نیز بیہقی نے اس واقعے کو دوسری اسناد سے نقل کیا ہے اور وہ تمام اسناد ضعیف ہیں۔

ابن سعد نے اس روایات کو الطبقات الکبری میں مرسل روایت کے طور پر نقل کیا ہے۔ ابن حجر نے الاصابہ میں اپنی سند سے اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے سلسلہ سند میں "عبدالرحمن بن زید بن اسلم” واقع ہوا ہے اور اہل سنت کے علمائے رجال کی ایک بڑی تعداد نے اس کو ضعیف گردانا ہے۔ (۵)

ابن حجر نے ایک دوسری سند سے اس کو عطاء خراسانی سے نقل کیا ہے جس کو ابن عدی اور بخاری نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (۶)

خطیب بغدادی نے اس کو ایک سند سے نقل کیا ہے جس کے سلسلے میں "احمد بن حسین صوفی”، "عقبہ بن عامر جہنی” اور "ابراہیم بن مہران مروزی” ہیں جن میں اول الذکر کے ضعف پر تصریح ہوئی ہے، دوسرے کا لشکر معاویہ کے کمانڈر کے طور پر تعارف کیا گیا ہے اور تیسرے کو مہمل اور بے معنی شخص قرار دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی روایت کی سند معتبر نہیں ہے۔

احادیث کے متون کا جائزہ

احادیث کے مختلف متون سے رجوع کرکے ہمیں بعض نقائص اور خامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۱۔ دھونس دھمکی

بعض روایات میں منقول ہے کہ رشتہ دھونس دھمکی سے مانگا گیا تھا۔

کلینی نے امام صادق (علیہ السلام) سے ام کلثوم کے نکاح کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

"وہ ہماری خواتین میں سے ایک خاتون تھیں جو غاصبانہ انداز سے کسی اور کے نکاح میں گئیں۔ (۷)

شیخ مفید (رحمہ اللہ) رقمطراز ہیں: "امیرالمؤمنین (علیہ السلام) عمر کی دھمکی اور اپنی اور اپنے پیروکاروں کی جان کو درپیش خطرے کی بنا پر از روئے ضرورت و مجبوری یہ رشتہ قبول کیا؛ اور جیسا کہ ہم نے اپنے مقام پر کہا ہے: ضرورت کلمہ کفر کے اظہار کو جائز کر دیتی ہے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ. "سوا اس کے کہ جو مجبور کیا جائے اور دل اس کا ایمان کے ساتھ مطمئن ہو”۔ (۸)

ابن سعد نقل کرتا ہے کہ علی (علیہ السلام) نے عمر کے جواب میں فرمایا: وہ ایک چھوٹی بچی ہے۔ عمر نے کہا: خدا کی قسم آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ مجھے اس کام سے منع کریں اور میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں اس کا رشتہ مجھے نہيں دینا چاہتے۔۔۔”۔ (۹)

ابن المغازلی شافعی نے نقل کیا ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا: "خدا کی قسم! مجھے کسی چیز نے بھی اس رشتے پر آماد نہيں کیا سوائے اس کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔”۔ (۱۰)

اس روایت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ امیرالمؤمنین (ع) نے مجبور ہوکر یہ رشتہ قبول کیا۔

بعض تاریخی متون میں منقول ہے کہ عمر نے یہ رشتہ عمرو بن عاص کی تحریک پر مانگا تھا۔

شیخ مفید فرماتے ہیں کہ "ہرگاہ ضرورت انسان کو گمراہ شخص سے بیٹیاں بیاہنے پر آمادہ کرے جبکہ وہ شخص بظاہر کلمۂ اسلام کا اظہار کررہا ہو، کراہت ختم ہوجاتی ہے اور نکاح جائز ہوجاتا ہے؛ یہ واقعہ کسی صورت میں بھی قوم لوط کے واقعے سے زيادہ حیرت انگیز نہيں ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مردوں کو تجویز دی کہ ان کی بیٹیوں سے نکاح کریں حالانکہ وہ سب کافر، گمراہ و منحرف تھے۔ خداوند متعال لوط (علیہ السلام) کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے:

"قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ”۔

ترجمہ: "انہوں نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! یہ میری لڑکیاں موجود ہیں۔ یہ تمہارے لیے زیادہ مناسب ہیں”۔

(سورہ ہود آیت ۷۸)؛ کتاب "تَزْوِيْجُ عَلِىّ عليه السلام بِنْتَهُ مِنْ عُمَرَ، ص ۱۵”۔

شیخ مفید (رح) لکھتے ہیں: "اگر اس قضیئے کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کے لئے دو توجیہات ہیں اور وہ دونوں امیرالمؤمنین (ع) سے قبل گذرنے والوں کی گمراہی کے حوالے سے شیعہ عقیدے کے منافی نہيں ہیں:

الف: نکاح ظاہری اسلام کی بنیاد پر انجام پایا ہے جیسے: شہادتین کا اظہار، قبلہ کی طرف نماز، اور پوری شریعت پر اقرار۔ اگرچہ افضل یہ ہے کہ نکاح ایسے شخص سے کیا جائے نہ یہ کہ اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرکے اس پر گمراہی کا اضافہ کیا ہو؛ اور بس اس موضوع تک نہ پہنچا ہو کہ اسلام کے دائرے سے خارج نہيں ہو۔ لیکن اگر ضرورت نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیٹی ایک گمراہ شخص سے بیاہ دے جبکہ وہ شخص شہادتین کا اظہار کرتا ہے، تو کراہت ختم ہوجاتی ہے، اور جو عمل اختیار کی صورت میں مکروہ تھی جائز ہوجاتی ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو تالیف قلوب اور لوگوں کے خون کے تحفظ کی ضرورت تھی؛ اسی بنا پر ان ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اس مسئلے کی مخالفت کریں تو لوگوں کے دین اور دنیا کو نقصان پہنچے گا۔ چنانچہ آپ (ع) نے عمر کی درخواست کا مثبت جواب دیا۔ (یہ اس صورت میں ہے کہ اگر نکاح کے فرض کو تسلیم کیا جائے)۔

ب: اس شخص کے ساتھ نکاح و ازدواج حرام ہے جو امامت کا منکر ہو یا اس الہی عہدے کا غیر مستحق افراد کے لئے قائل ہو، مگر یہ کہ انسان کو دین اور جان کا خطرہ ہو۔ جیسا کہ کلمہ کفر زبان پر لانا ـ جو کلمہ ایمان کے خلاف ہے ـ اسی صورت میں جائز ہے۔ اور مردار اور خنزیر کا گوشت کھانا بھی ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے۔ گوکہ اختیار کی صورت میں حرام ہے۔

ثابت کیا جا چکا ہے کہ ضرورتوں اور محذورات و مجبوریوں کی بنا پر محرمات مباح ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے کافروں کو اپنی بیٹیوں سے نکاح کی پیشکش کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی دو بیٹیاں (یا سوتیلی بیٹیاں) دو کافروں سے بیاہ دیں”۔

"المسائل السروية”

نیز فرماتے ہیں: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی دو بیٹیاں (یا سوتیلی بیٹیاں) اپنی بعثت سے قبل عتبہ بن ابی لہب اور ابوالعاص بن ربیع سے بیاہ دیں اور بعثت کے بعد انہیں ان کے شوہروں سے جدا کردیا۔ عتبہ حالت کفر میں مرگیا اور ابوالعاص اسلام لایا اور دوبارہ نکاح اول کی طرف لوٹا….”. (۱۱)

٢۔ حدیث کا متن مضطرب ہے

یہ حدیثیں یا روایات مضطرب ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ متن کا اضطراب ان امور میں سے ہے جو حدیث کو حجیّت اور اعتبار سے ساقط کردیتا ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اپنی بیٹی کے نکاح کے متولی ہوئے۔ دوسروں نے کہا ہے کہ عباس متولی ہوئے، بعض کہتے ہیں کہ نکاح امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے اختیار اور مرضی سے ہوا اور دوسرے کہتے ہیں کہ عمر نے امیرالمؤمنین (ع) کو دھمکی دی۔ بعض روایات میں ہے کہ عمر ام کلثوم سے ایک بیٹے "زید” کے باپ بنے؛ بعض کہتے ہیں کہ ابھی ام کلثوم سن بلوغت کو نہ پہنچی تھیں اور مباشرت انجام نہیں پائی تھی کہ عمر قتل کئے گئے۔ بعض نے کہا ہے کہ زید بن عمر کی نسل چلی اور بعض کہتے ہیں وہ لاولد ہی دنیا سے رخصت ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ زید اور اس کی والدہ ام کلثوم کو قتل کیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ زید کا انتقال ہونے کے بعد بھی ام کلثوم زندہ تھیں۔ بعض روایات میں ہے کہ عمر نے ان کا حق مہر چالیس ہزار درہم قرار دیا اور بعض نے کہا ہے کہ حق مہر چار ہزار درہم مقرر ہوا اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ حق مہر پانچ سو درہم سے زیادہ نہ تھا۔

۳۔ عمر اور ام کلٹوم کے درمیان عمر کا اختلاف

فقہاء کہتے ہیں کہ نکاح میں عورت اور مرد کو کفو اور ایک جیسا ہونا چاہئے جبکہ اس مسئلے میں عمر کے لحاظ سے طرفین میں کوئی تناسب نہ تھا۔ کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: وہ صغیرہ ہے اور بعض روایات کے مطابق فرمایا کہ وہ صبیہ ہے۔ (۱٢)

منابع اور مآخذ:

۱. "منتهى الآمال في تواريخ النبي و الآل ،ج‏۱،ص:۴۴۹”

٢. "طبقات ابن سعد، ج ۸، ص ۴۶٢”۔

۳. "مستدرك حاكم، ج ۳، ص ۱۴٢”۔

۴. "بيهقى، سنن الكبرى، ج ۷، ص ۶۳”۔

۵. رجوع کریں: "عقيلى، الضعفاء، ج ٢، ص ۳۳۱؛ ابن عدى، الكامل فى الضعفاء، ج ۷، ص ۱۵۸۱”۔

"وہی مأخذ، ج ۵، ص ۳۳۷.

۶. "الكامل، ج ۷، ص ۶۹”.

۷. "وافى، ج ۵، ص ۴۳۶”۔

۸. "مسائل سرويه، ص ۹٢”۔

۹. "طبقات ابن سعد، ج ۸، ص ۴۶۴”۔

۱۰. "مناقب امام على عليه السلام ص ۱۱۰”۔

۱۱. "ترويج امّ كلثوم من عمر ص ۱۶”۔

۱٢. "طبقات ابن سعد، ج ۶، ص ۳۱٢”۔

شيعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج‏٢، ص: ۱۷۳

متعلقہ مضامین

Back to top button