دنیا

امریکی سینیٹر نے ایران پر پابندیوں کا بل موخر کر دیا

امریکی سینیٹر مننڈز نے کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف نئي پابندیوں کا اپنا بل موخر کررہے ہیں۔گذشتہ روز ذرایع ابلاغ نے امریکی کانگریس کی ویب سائيٹ کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ امریکی سینیٹر رابرٹ مننڈز نے کہا ہےکہ انہوں نے ایران کے خلاف نئي پابندیوں کے اپنے بل کو مارچ تک متاخر کردیا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہيں کہ اپنے بل کے حق میں ڈیموکریٹس اراکین کی حمایت بھی حاصل کرلیں۔ اس امریکی سینیٹر نے کہا ہے کہ ایران کے تعلق سے تین راستے ہیں۔ پہلا راستہ بقول ان کے فوجی راستہ ہے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایٹمی ایران کو تسلیم کرلیا جائے اور تیسرا راستہ یہ ہے کہ ایران پر پابندیاں شدید کردی جائيں۔ مننڈز نے کہا ہے کہ اگر پابندیاں باقی رہیں تو انہیں صحیح طور پر لاگو کیا جائے اور ان سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تیسرا راستہ بھی موجود ہے۔ امریکی سینیٹ نے ایران کے خلاف پابندیوں میں شدت لانے کی دو تجویزیں پیش نظر رکھی ہیں۔ پہلی تجویز مارک کریک اور رابرٹ مننڈز نے تیار کی ہے۔ ان سینیٹروں نے اپنی تجویز میں کہا ہےکہ ایران کے ساتھ جولائي میں معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران کے انرجی سیکٹر پر پابندیاں مزید سخت کردی جائيں۔ دوسری تجویز میں جسے باب کورکر اور لینڈسی گراہم کی مشترکہ تجویز کانام دیا گيا ہے کہا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ ہرطرح کے مجوزہ معاہدے کو کانگریس کی منظوری حاصل ہوني چاہیے۔ واضح رہے امریکی کانگریس کی یہ چالیں ایسے عالم میں سامنے آرہی ہیں کہ وہائٹ ہاوس نے کہا ہےکہ وہ مذاکرات کے دوران ایران پر پابندیاں لگانے کا مخالف ہے۔ ادھر اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے کچھ دنوں قبل کہا تھا کہ کانگریس کی جانب سے ایران پر نئي پابندیوں سے جامع ایٹمی معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ایران کےبجائے امریکہ الگ تھلک ہوسکتا ہے۔ یاد رہے اسلامی جمہوریہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ مذاکرات بدستور جاری ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ دو روز قبل زوریخ میں ایران اور امریکہ کے وفود نے بھی مذاکرات کئے تھے۔ ادھر مغربی کمپنیاں ایران پر عائد پابندیوں کے ہٹائے جانے کےلئے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں اس کےباوجود امریکی حکام اس امر کی مخالفت کررہے ہیں۔ کچھ دنوں قبل امریکہ کی وزارت خزانہ نے ایران اور پانچ جمع ایک کے معاہدے کے برخلاف ایران پر نئي پابندیاں عائد کی تھیں جبکہ مذاکرات کے موقع پر ایران کے خلاف پابندیاں لگانا جینوا معاہدے کے برخلاف ہے۔ وائٹ ہاوس کے حکام جانتے ہیں کہ جینوا معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیاں ہٹانا پانچ جمع ایک گروہ کا کام ہے اور جس طرح سے اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تمام ذمہ داریوں پر عمل کیا ہے، ایران کے مد مقابل کو بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا۔ واضح رہے آئي اے ای اے کے سربراہ نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تائيد کی ہے کہ ایران نے اپنی ذمہ داریوں پر مکمل طرح سے عمل کیا ہے۔ اس نکتےکی طرف ایران کے وزیر خارجہ نے تہران میں کرویشیا کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ وسنا پوسیچ سے ملاقات میں اشارہ کیا ہے۔ محمد جواد ظریف نے ایک بار پھر اس بات پر تاکید کی تھی کہ مغرب اور یورپ کو چاہیے کہ وہ ایرانی قوم کا اعتماد حاصل کرے۔ محمد جواد ظریف نے جمعے کو بھی ڈیووس میں ایک پریس میٹنگ میں خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی کانگریس ایران کے خلاف نئي پابندیاں لگاتی ہے تو ایران کی پارلیمنٹ بھی اس کا جواب دے گي۔ ایران کو مغرب کی پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے پابندیوں کا ہتھکنڈا ایک شکست خوردہ ہتھکنڈا ہے اسی طرح یہ تھیوری کہ ایران پر اگر مزید پابندیاں لگادی جائيں تو اس وقت جامع معاہدے کا زیادہ امکان پایا جاتا ہے، اس کی مذاکرات میں کوئي جگہ نہيں ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ امریکہ، ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے مذاکرات کے دائرے میں کہ جس کا ایک اہم نکتہ جامع معاہدے کے لئے ایران پر عائد تمام پابندیوں کا خاتمہ ہے کہاں تک آگے بڑھنے کی ہمت رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button