مقالہ جات

یہاں روز ایک نئی کربلا سجتی ہے

16دسمبر پاکستان کی تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے کہ آج کی تاریخ میں بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ موجودہ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر شیہد کیا گیا تھا لیکن اب 16 دسمبر کے چہرے پر ایک اور بدنما، بدصورت اور قابلِ نفرت داغ کا اضافہ ہوگیا۔ یہ داغ آرمی پبلک اسکول وارسک روڈ پشاور پر دہشت گردوں کا منظم حملہ ہے۔ دہشت گرد ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جن کے خلاف پاکستان افواج کا بھرپور آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ اس آپریشن کو ناکام بنانے کے لئے یا اس کا بدلہ لینے کے لئے یا ملالہ یوسف زئی کو ملنے والا نوبل انعام اور عالمی پذیرائی کی وجہ سے دہشت گردوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت آرمی پبلک اسکول وارسک روڈ پشاور پر حملہ کرکے اس کو یرغمال بنالیا۔ جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق140سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ دہشت گردوں کے اس منظم حملے میں سفاکیت کی کئی داستانیں رقم ہوئی ہیں جوکہ شاید کبھی منظر عام پر بھی نہ آسکیں۔ اطلاعات کے مطابق ایک خاتون ٹیچر کو اس کے شاگردوں، بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا، جو بچے دہشت گردی کی اس وحشیانہ کارروائی کے وقت موجود تھے، جنہوں نے بربریت کے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ وہ ساری عمر اس سانحے کے پیدا کردہ نفسیاتی اثرات سے آزاد نہیں ہوسکیں گے۔ انسان اگر دکھ درد سے عاری ہے، اگر وہ حساسیت سے محروم ہے تو شاید وہ ایک نارمل انسان ہی نہیں ہے۔ معصوم بچوں کی اس خوفزدہ حالت کا میں تصور کرتا ہوں، جب معصوم بچے انسان نما درندوں کے اپنے سامنے دیکھ رہے ہوں گے اور موت کو اپنی جانب دھیرے دھیرے بڑھتا دیکھ رہے ہوں گے تو ان پر کیا گزر رہی ہوگی، یہ سوچ کر ہی میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ میں اپنا دکھ اور تکلیف بیان نہیں کرسکتا اور خدا کی بارگاہ میں رحم کے لئے ہاتھ پھیلا دیتا ہوں۔ معصوم بچے، پھول، کلیاں، نزاکت، معصومیت، خوبصورتی، سچائی یعنی اس دنیا کی خوب صورت ترین کوئی چیز ہے تو وہ معصوم بچہ ہے۔ ان فرشتوں کو جس بے دردی سے خون میں نہلا دیا گیا، اس کا تصور ہی انسانیت کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔ یقینا ہم اس وقت ایک غیر معمولی صورت حال سے دوچار ہیں۔ 16دسمبر کا دن اب نہ صرف پاکستان بلکہ اقوامِ عالم کا ضمیر جگانے کے لئے کافی ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہم اب تک کتنے زخم اٹھا چکے ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر یاد رکھا جانا چاہئے۔ اس دن کو معصوم بچوں پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے یاد رکھنے کے لئے اس دن کو نہ صرف پاکستان میں قومی اسمبلی میں قراردار پیش ہونا چاہئے بلکہ اقوامِ متحدہ بھی 16دسمبر کو معصوم بچوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے یادگار قرار دے اور ان معصوم بچوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرے۔ اس قابل نفرت اور گھناؤنے واقعے پر ہر پاکستانی، ہر مسلمان اور ہر انسان کو اپنے فطری ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے کہ وہ خوف، درندگی، دہشت گردوں سے نفرت کرتا ہے اور اسے خوب صورتی، سچائی، معصومیت اور معصوم بچوں سے اور معصوم بچوں کی ہنسی سے پیار ہے۔ ہم بچوں کو ہنستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر ہر سیاسی جماعت اور مختلف طبقۂ فکر کی جانب سے مذمتی ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ یقینا ان کے بیانات ان کے الفاظ روح سے عاری نہیں ہیں کہ وہ بھی انسان اور صاحب اولاد ہیں لیکن اس وقت ضرورت ایک اجتماعی ردعمل کی ہے، ایسا بھرپور ردعمل، جوکہ ثابت کردے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک بحیثیت قوم ہم دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور شہداء کے لواحقین کو احساس ہو کہ ان کے دکھ، درد اور کرب کو نہ صرف پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا بلکہ ہم ان کے غم میں شریک ہیں اور دہشت گردوں سے اور ان کے نظریاتی جمایتیوں اور اتحادیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے ایک اجتماعی ردعمل کا مطالبہ سامنے آیا ہے، جوکہ ایک ہمدرد انسان کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ دیگر سیاسی رہنماؤں اور ہر طبقۂ فکر کے افراد، جو کہ اپنا ذرا بھی حلقہ اثر رکھتے ہوں، انہیں اس سانحہ کے خلاف اپنا بھرپور ردعمل اجتماعی طور پر ظاہر کرنا چاہئے۔ متحدہ قومی موومنٹ اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف کھلے الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتی رہی ہے بلکہ عملی طور پر بھی ایسے اقدامات کرتی رہی ہے، جس سے عوام کی دہشت گردوں کے خلاف نفرت ظاہر ہوتی ہو۔ تو اس دفعہ متحدہ قومی موومنٹ کو نئی روایت قائم کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستانی افواج اس وقت ہماری حفاظت کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے۔ پاکستانی افواج کو ایک دفعہ پھر اپنی حکمت عملی پر نظرِثانی کرتے ہوئے دہشت گردوں پر ایک ایسی بھرپور کاری ضرب لگانی چاہئے کہ ان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ کر صرف کتابوں میں حقارت اور نفرت کی علامت بن کر زندہ رہے۔ آج ہر آنکھ اشکبار ہے، موت کے سائے شہر پشاور پر اپنی چادر تانے ہوئے ہیں، یہ واقعہ انسانی تاریخ میں کبھی بھی فراموش نہ کیا جاسکے گا، جب جب انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کی جائے گی، جب جب ان معصوم بچوں کی قربانی انسانیت کو اشکبار کردیں گی، آل پارٹیز کانفرنس تادم تحریر مکمل ہوچکی اور جس عزم کا اظہار کیا گیا وہ قابل ستائش ہے لیکن یہ امر بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ لڑائی کئی دھائیوں پر مشتمل ہوسکتی ہے، کیونکہ سامنے والے دشمن کو جلدی نہیں، کیونکہ جنگ انکا پیشہ ہے اور وہ امن ترقی اور خوشحالی کے متمنی نہیں، آج پاکستان کے ان بے گناہ بچوں نے اپنے خون سے ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیا اور انکی یہ قربانی ایک تابناک مستقبل کی ضامن ہوگی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button