پاکستان

طالبان دفتر کے قیام کا مطلب ریاست کے اندر ریاست کو تسلیم کرنا ہے، میاں افتخار حسین

mea iftakharعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے تحریک انصاف کو دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات اور حکومت کی عملداری کے قیام کیلئے مینڈیٹ دیا تھا، تاہم عوام کے اعتماد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حکومت مادر پدر آزاد ہے۔ دہشتگرد تو ایک طرف اب صوبائی حکومت خود آئین سے انحراف کرتے ہوئے طالبان دفتر کھولنے کے حوالے سے بیانات دے رہی ہے۔ پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صوبائی حکومت کا غیر سنجیدہ اور بچگانہ رویہ دہشتگردوں کو اعتماد دینے کے مترادف ہے اور ان کی کوشش ہے کہ خیبر پختونخوا کے طرح آئندہ الیکشن میں پاکستان کی سطح پر دہشتگردوں کی حمایت کر کے عمران خان وزیراعظم بننے کا خواب پورا کریں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ازخود دہشتگردوں کا حصہ بننے پر تلی ہوئی ہے جبکہ حکومت اور خود عمران خان نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے۔ طالبان دفتر کا مطلب یہی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کو تسلیم کیا جائے، طالبان کی حیثیت کو حکومت کے مساوی تسلیم کرنا مکمل طور پر غیر آئینی ہے اور آئین سے انحراف غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ طالبان کے 45 سے زائد گروپ ہیں اب صوبائی حکومت یہ واضح کرے کہ کس کس گروپ کو دفتردیا جائیگا۔ دہشتگردوں کیلئے ایک الگ سیکرٹریٹ بنایا جائیگا۔ صرف کرسی کو بچانے کیلئے ملک کی بقاء کو دائو پر لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت دہشتگردوں کی پشت پناہی میں اس حد تک آگے جا چکی ہے کہ روزانہ طالبان دفتر کے حوالے سے وزیر اور اب وزیراعلیٰٰ بیانات دے رہے ہیں۔ اب بھی اگر صوبے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہو گی۔ کیونکہ وہ دہشتگرد قوتوں کو ریاست کے برابر قوت تسلیم کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ایسے حالات میں صوبائی حکومت کیخلاف ایف آئی آر کا اندراج ہونا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button