پاکستان

قبائلی علاقے کے لوگ عسکری تربیت کی ضرورت، حیرت انگیز بات؟ بد عنوان پولیس آفیسر راجہ عمر خطاب کا کھلا جھوٹ

sindh pollice-cidکراچی پولیس کے کرائم انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے انچارج بد عنوان ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے حال ہی میں کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دو افراد کو پیش کرتے ہوئے ان کا تعلق پارا چنار سے بتایا اور کہا کہ دونوں گرفتار افراد نے عسکری تربت ایران سے حاصل کی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی سیکڑوں سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے مرد اسلحہ کو اپنا زیور قرار دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں میں زندگی بسر کرنے کے ساتھ سخت سے سخت حالات میں زندگی گزارنے کے لئے اپنی تربیت حالات کے مطابق انجام دیتے ہیں ، جبکہ کراچی پولیس میں موجود متعصب اور بد عنوان پولیس آفیسر راجہ عمر خطاب کا یہ کہنا کہ قبائلی علاقے کے لوگ ایران سے عسکری تربیت حاسل کر رہے ہیں ایک عجیب و غریب مذاق کے مترادف بھی ہے اور ساتھ ساتھ انکی بد بو دار ذہنیت اور تعصب سے بھری دماغی کیفیت کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کراچی پولیس میں ایک بد عنوان اور متعصب پولیس آفیسر کے عنوان سے جانے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب کے لئے یہ بات بھی مشہور ہے کہ راجہ عمر خطاب کراچی کی ایک لسانی دہشت گرد جماعت اور کالعدم دہشت گردگروہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ساتھ اچھے روابط بھی رکھتے ہیں جس کے باعث ماضی میں بھی انہوں نے کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خطر ناک دہشت گردوں کو نہ صرف پولیس کی تحویل سے آزاد کروانے میں مدد کی ہے بلکہ شہر کراچی میں ہونیو الی متعدد بڑی دہشت گردانہ کاروائیوں میں بھی راجہ عمر خطاب کا ہاتھ رہا ہے۔
حال ہی میں راجہ عمر خطاب کی جانب سے کی کی جانیو الی پریس کانفرنس میں پیش کئے جانے والے دو گرفتار نوجوانوں کو جہاں ایک طرف ملت جعفریہ کے ساتھ تعلق دکھایا گیا وہاں ان دونوں نوجوانوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ دونوں نوجوانوں نے ایران سے تربیت حاصل کی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو آخر کیا ضرورت ہے کہ وہ عسکری تربیت حاصل کرنے کے لئے کسی پڑوسی ملک جا کر تربیت حاصل کریں، لہذٰا راجہ عمر خطاب کا جھوٹ ان کی مکاری اور کالعدم دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات کو ثابت کرتا ہے اور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ راجہ عمر خطاب شہر کراچی میں لسانی دہشت گرد جماعت اور کالعدم مذہبی دہشت گرد گروہوں کی ایماء پر فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دے کر خون کی ہولی کھیلنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ قبائلی علاقوں میں زندگی گزارنے والے لوگوں کو کسی بھی دوسرے ملک جا کر تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں بسنے والے افراد جنگجو اور طاقتور شمار کئے جاتے ہیں ، اگر قبائلی علاقو ں کے لوگوں کو کسی دوسرے ملک سے تربیت کی ضرورت ہے تو کیا پاکستا ن میں پائے جانے والے لاکھوں طالبان دہشت گردوں نے سعودی عرب سے عسکری تربیت حاصل کی ہے؟اس سوال کے بارے میں متعصب اور بد عنوان پولیس آفیسر راجہ عمر خطاب کو ضرور سوچنا چاہئیے۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button