لبنان

حسان القیس کون تھے؟

hasan al qaisلبنان کے اخبار السفیر نے لکھا ہے کہ حزب اللہ کے ایک اعلی کمانڈر حسان اللقیس کو 3 دسمبر کو سائیلنسر لگے اسلحے سے جنوبی بیروت میں عیسائی
آبادی والے علاقے الضاحیہ میں ان کے گھر کے سامنے شہید کردیا گیا اور لبنان کے سیکورٹی افسران کا کہنا ہے کہ بعلبک میں اہل سنّت آزادگان بریگیڈ لواء احرار السنہ اور اسی طرح انصار الامۃ الاسلامیۃ نامی گروہوں نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے نشاندہی ہوتی ہے کہ حسان اللقیس جب اپنے گھر سے باہر نکلے تو 9 میٹر کے فاصلے سے ایک شخص نے ان پر فائرنگ کی اور گولی ان کے سر و سینے پر لگیں اور فائرنگ کے بعد نامعلوم فرد جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ بعض سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واردات میں دو افراد شریک تھے اور ان دونوں افراد کو علاقے سے مکمل آشنائی تھی اور ان دونوں مجرموں کو یہ بھی معلوم تھا کہ حسان اللقیس کس وقت آتے ہیں اور کب جاتے ہیں اور ان ملزموں نے ان پر دقیق نظر رکھی ہوئی تھی، سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حسان اللقیس گذشتہ تین برسوں سے اس گھر میں رہائش پذیر تھے ، اللقیس ہفتے میں چار دن بیروت اور تین دن بعلبک میں اپنے گاؤں والے گھر میں رہا کرتے تھے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکورٹی کمانڈرز یہ جانتے تھے کہ اللقیس عماد مغنیہ کے قتل کے بعد موساد کا اگلا نشانہ ہیں ، لیکن اس کے باوجود حسان اللقیس نے اپنے لئے ذاتی محافظ نہیں لیا تھا، اللقیس بغیر ڈرائیور و محافظ کے بیروت و بعلبک آیا جایا کرتے تھے اور کبھی کبھار عماد مغنیہ کے مانند ٹیکسی میں بھی سوار ہوجایا کرتے تھے۔ ایک سیکورٹی ذرائع نے کہ جن کا اللقیس کے ساتھ قریبی رابطہ تھا کا کہنا ہے کہ حسان اللقیس نے بیروت میں امریکی یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور 1980 کی دہائی سے بعلبک میں حزب اللہ کے اس وقت کے انچارج سید حسن نصراللہ کے ساتھ مختلف کاموں میں مشغول رہے ہیں اور حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے ساتھ ان کا قریبی تعلق تھا ۔ شہید حسان اللقیس بعلبک کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود مزاحمت کے ساتھ منسلک رہے ۔ حسان اللقیس کے ایک نزدیکی دوست کا کہنا ہے کہ اللقیس مزاحمت کے بہت سے امور کے راز داں تھے ، میں ان کو گذشتہ تیس برسوں سے جانتا ہوں لیکن مجھے آخر تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ حزب اللہ میں ان کی مسئولیت کیا ہے۔ حسان اللقیس کے ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ 2006 کی جنگ میں صہیونی جاسوسوں کو یہ اطلاع ملی تھی کہ فلاں عمارت میں حسان اللقیس موجود ہیں لہذا صہیونی حکومت کے طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں اس عمارت کو منہدم کردیا تھا لیکن حسان اللقیس نے بمباری سے قبل ہی اس عمارت کو ترک کردیا تھا البتہ ان کا 18 سالہ بیٹا علی رضا صہیونیوں کی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوگیا تھا۔ 2006 کی جنگ کے دوران ضاحیہ کے علاقے میں حسان اللقیس کی گاڑی پر صہیونی فوجیوں نے دو راکٹ فائر کیئے تھے لیکن وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ حسان اللقیس کے رنج و غم بیٹے کی شہادت کے بعد بھی جاری رہے اور ایک مدت بعد ان کی 15 سال کی بیٹی اس دار فانی سے کوچ کرگی۔ حسان اللقیس کے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ حزب اللہ کے ایک اہم کمانڈر ہیں ان کے ہمسایوں کو صرف یہ معلوم تھا کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ بیروت میں اپنے بچوں کو خود اسکول لے جایا کرتے تھے ، بعلبک میں غریبوں کی مدد کرنے کے حوالے سے ان کی شہرت تھی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button