لبنان

تل ابیب حزب اللہ کے 6000 راکٹوں کی زد میں

images_18امریکی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ اگلی جنگ بہت سخت ہو گی کیونکہ اس نے تل ابیب کو نشانہ بنانے کیلئے تقریبا 6000 جبکہ دوسرے علاقوں کو نشانہ بنانے کیلئے 30000 کے لگ بھگ میزائل تیار کر رکھے ہیں۔
اکتوبر 2009 میں امریکہ کے خفیہ ادارے کے نمائندوں نے اپنے ہم منصب صہیونی خفیہ ادارے کے راھنماوں کے ساتھ میٹنگ کی جو 1983 سے لے کر اکتوبر 2009 تک دونوں ممالک کے خفیہ ادروں کی 40 ویں میٹگ قرار دی جا رہی ہے۔  اس میں امریکی وفد کی قیادت وزارت خارجہ کے بلند پایہ مسئول "رابرٹ میگی” جبکہ اسرائیلی وفد کی قیادت اسرائیلی حکومت کے وزارت جنگ کے ڈائریکٹر جنرل "بنہاس بوخرس” نے کی۔
اسرائیلی اخبار "ھارٹز” کے مطابق اس میٹنگ میں اہم معاملات پر گفتگو ہوئی جن میں سے چند اہم موضوعات، ایران کا ایٹمی پروگرام، عراق کی صورتحال، غزہ پٹی کی صورتحال، مبارک حکومت کے ساتھ اسرائیل کے روابط اور اسرائیل کی طرف سے مستقبل میں حزب اللہ کے خلاف جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
حزب اللہ کے خلاف جنگ کے متعلق امریکی وفد، جو امریکی سی آئی اے اور وزارت دفاع کے اعلی آفیسرز پر مشتمل تھی، نے اسرائیلی وزارت جنگ اور موساد کے اپنے ہم منصب راھنماوں کو مندرجہ ذیل وضاحتیں پیش کیں۔
یہ کہ آنے والے جنگ میں حزب اللہ کا مقصد صہیونی سرزمین پر بڑے پیمانے پر اور روزانہ حملے کرنا ہے۔ خصوصا یہ کہ جب حزب اللہ کا دعوا ہے کہ ان کی رینج میں تل ابیب بھی شامل ہے۔ انہوں نے صہیونی راھنماوں پر واضح کیا کہ حزب اللہ آنے والے جنگ میں چاھتا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے عماد مغنیہ کی شہادت کا بدلہ صہیونیوں سے لیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے آذربائجان اور مصر کے دو ناکام آپریشنز کی طرف بھی اشارہ کیا۔ جس میں، بقول انکے، حزب اللہ نے ایران کے تعاون سے باکو اور قاھرہ میں اسرائیل کے سفارتخانوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کر لی تھی مگر اسرائیلی حکومت کی مصر اور باکو حکومت کے ساتھ تعاون کی وجہ سے یہ دونوں حملے ناکام ہوگئے۔
مزید برآن اس میٹنگ میں اسرائیلی حکومت کے فوجی اطلاعات کے ادارے [امان] نے دعوا کیا کہ شام اور ایران کی جانب سے حزب اللہ کو اسلحہ کی ترسیل بھی اسرائیلی حکومت کے سامنے ایک معما ہے چنانچہ انہوں نے اس ضمن میں پیشیں گوئی کی کہ لبنان کی دوسری لڑائی کے مقابلے میں حزب اللہ اب بہت طاقتور ہو چکی ہے اور اس پورے عرصے میں حزب اللہ اپنے فوجی سازوسامان کو وسعت دیتے ہوئے 20 ھزار چھوٹے جبکہ سینکڑوں دور مار میزائل جمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے سمندر سے ساحل پر مار کرنے والے میزائل پیدا کرنے اور اس سلسلے میں اپنے ہتھیار کے ذخائر کو مزید وسعت دینے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے بڑھ کر حزب اللہ کے پاس ایران کے فراہم کردہ بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے طیارے بھی موجود ہیں۔
میٹنگ کے اختتام پر امریکی وفد کے سربراہ، رابرٹ میگی نے اپنے اسرائیلی ھم منصب سے خود یہ سوال کیا کہ تمھاری نظر میں حزب اللہ کا اصل مقصد کیا ہے؟ میٹنگ میں حاضر افسران میں سے ایک نے جواب دیا کہ "یہ شیعہ تنظیم” اسرائیل کے ساتھ طویل مدت تک مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ 2006 کی لڑائی میں تل ابیب پر حملہ نہیں ہوا تاہم یاد رکھیں کہ آئندہ لڑائی میں حزب اللہ طاقت کے توازن کو مکمل طور پر بگاڑ دے گی۔
موساد کے نمائندے نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی کوشش ہو گی کہ جنگ کے آخری ایام تک اسرائیل پر میزائل حملے جاری رکھے اور توقع کی جا رہی ہے کہ مقبوضہ علاقوں کی طرف روزانہ 400 میزائل فائر کئے جائیں گے جن میں سے 100 میزائل صرف تل ابیب کی طرف فائر کئے جائیں گے۔
اس مشترکہ میٹنگ میں موساد کے نمائندے نے کہا کہ صہیونی حکومت کی پیشیں گوئیاں یہ واضح کر رہی ہیں کہ حزب اللہ کم از کم دو ماہ کے لئے یہ میزائل بلاناغہ، روزانہ اسرائیل کی جانب فائر کرے گی۔ اسی بنیاد پر اسرائیل اندازہ لگارہا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ آنے والی جنگ کم از کم دو ماہ طول کھینچے گی جس کے دوران 26 سے لیکر 36 ھزار میزائل مقبوضہ علاقوں کی طرف چلائے جائیں گے جن میں سے 6000 تل ابیب کو نشانہ بنائے گی۔
مگر اس میٹنگ میں امریکی اور صہیونی نمائندوں کے درمیان باعث اختلاف ہونے والا اور بڑی اہمیت کا حامل نکتہ جو تھا، وہ لبنانی فوج سے متعلق تھا۔ صہیونی حکومت کے نمائندوں کا خیال تھا کہ امریکہ کی طرف سے لبنانی افواج کو اسلحہ فراہم کرنا غلط اقدام ہے کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جنگ کے دوران لبنانی فوج یہ اسلحہ حزب اللہ کے اختیار میں دیں۔ صہیونی حکومت کے وزارت جنگ کے دفاعی شعبے کے سربراہ "آموس گیلاد” نے اس سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی فوج کو مسلح کرنا اسرائیل کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔ تاہم امریکیوں نے اسرائیلیوں کو اس سلسلے میں پوری تسلی دی کہ لبنانی فوج کو مسلح کرنے سے انکا مقصد حزب اللہ سے انہیں دور کرنا اور حزب اللہ پر انکا تکیہ کم کروانا ہے۔
جبکہ گیلاد نے اسکی اس نظر کو ھدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو یقین ہے کہ آئندہ لڑائی میں جنوب لبنان میں جب بھی حزب اللہ کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو لبنان کی فوج انکی کمک کے لئے ضرور اقدام کرے گی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button