سعودی عرب

آل سعود کو عوام کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ،آیت اللہ شیخ باقر النمر سے ملاقات کی اجازت

shiitenews ayatullah sheikh nemrآیت اللہ نمر باقر النمر کو زخمی کرکے گرفتار کرنے کے بعد آل سعود کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے چنانچہ سعودی اہلکاروں نے اسیر عالم دین کے اہل خانہ کو اجازت دی کہ وہ "ظہران” کے فوجی اسپتال میں زیر علاج عالم دین سے ملاقات کریں۔
سعودی اہلکاروں نے گذشتہ ہفتے آیت اللہ نمر کی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ان کی گاڑی دیوار سے ٹکرائی جس سے گاڑی کو شدید نقصان پہنچا اور آیت اللہ نمر کو بھی گولی لگی جس کے بعد ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔
راصد نیوز ویب سائٹ نے لکھا کہ آیت اللہ نمر کے اہل خانہ میں سے بعض نے ظہران کے فوجی اسپتال میں ان سے ملاقات کی۔
اس رپورٹ کے مطابق اسیر شیعہ عالم دین کے ایک قریبی رشتہ دار نے ذرائع کو بتایا کہ آیت اللہ نمر کے جسم سے گولی نکالنے کے لئے ان کا آپریشن کیا گیا ہے اور وہ رو بصحت ہیں نیز ان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔
دریں اثناء القطیف صوبے کے شہر "العوامیہ” کے عوام نے ایک بار پھر اپنے امام جمعہ و جماعت اور دینی و انقلابی راہنما آیت اللہ نمر باقر النمر کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور ان لوگوں پر مقدمہ چلانے اور انہيں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جو نہتے اور پر امن مظاہرین کو قتل کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ آیت اللہ نمر باقر النمر کی گرفتاری سے لے کر اب تک احتجاجی مظاہروں میں شریک چار نوجوان شہید کئے گئے ہیں۔

دریں اثناء ایک عرب روزنامہ نویس نے کہا بلادالحرمین کے ناگفتہ حالات کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک موجودہ زمانے میں نہایت دشوار حالات سے گذر رہا ہے اور اس ملک میں متحرک و محرک قیادت اور خارجہ و داخلہ پالیسی کا شدید فقدان ہے چنانچہ عوامی احتجاجات میں شدت آنے کا امکان بالکل واضح ہے۔
القدس العربی کی خاتون کالم نگار و رپورٹر "مضاوي الرشيد” نے منطقۃالشرقیہ کے نامور عالم دین اور راہنما آیت نمر باقر النمر کو زخمی کرکے گرفتار کرنے اور اس سرکاری اقدام پر عوامی رد عمل اور ریلیوں نیز مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آیت نمر کی گرفتاری کے بعد "جمہوریہ الاحساء و القطیف” کا نام سماجی ویب سائٹوں پر رائج ہوا [جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ الشرقیہ کے عوام تا قیامت پرامن رہنے کے روادار نہیں ہیں اور ان کے صبر کا مزید امتحان نہ لینا ہی آل سعود کے مفاد میں ہے]۔
انھوں نے لکھا: جزیرہ نمائے عرب میں کوئی متحرک قیادت نہيں پائی جاتی، اس ملک میں کوئی سیاست اور کوئی پالیسی نہیں ہے [بلکہ حکمران خاندان کے فیصلے ہی سیاست اور پالیسی کا کام دیتے ہیں]، اور اس ملک کوئی خارجہ پالیسی نہيں ہے؛ گذشتہ دو برسوں سے عوام نے اپنے مطالبات پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن سعودی حکمران عوامی مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہے ہيں اور اب ان کے پاس ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے اور سیکورٹی فورسز اور افواج کو عوام پر حملہ کرنے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے حکم کے سوا کوئی بھی روش باقی نہي رہی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ بلادالحرمین کے عوام کے مطالبات در حقیقت "سیاسی حاکمیت کی تبدیلی” اور ملکی حاکمیت میں عوام کی شراکت داری کے مطالبات کے سانچوں میں ڈھلتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ آل سعود نے عوام کے جزوی مطالبات کو کچل دیا اور عوام بڑے مطالبات کی طرف متوجہ ہوئے اور دوسری طرف سے اس ملک کے نمایاں قائدین بوڑھے اور عمر رسیدہ ہوچکے ہیں اور کئی اہم شخصیات کا انتقال ہوچکا ہے جبکہ بادشاہ بھی 89 سال کے ہوچکے ہیں اور ان کو متعدد بیماریاں بھی لاحق ہیں جس کی وجہ سے مجموعی طور پر ملکی صورت حال مایوس کن ہوچکی ہے اور ہر طرف حیرت اور ابہام و تشویش کا دور دورہ ہے۔
الرشید لکھتی ہیں: بلادالحرمین کے موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے عوامی حرکتوں کو نظر انداز نہيں کیا جاسکتا جن کے دوران حکومت نے گولی چلائی ہے اور کئی افراد جان بحق ہوچکے ہیں اور یہ امکان پایا جاتا ہے کہ الشرقیہ سے مظاہروں اور ریلیوں کا یہ سلسلہ سنی علاقوں تک بھی پہنچ سکتا ہے اور اس صورت میں حقیقت یہ ہے کہ عوامی تحریک پر قابو پانا بہت دشوار ہوجائے گا اور اس کے خطرات سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔
انھوں نے آخر میں انھوں نے لکھا ہے: القطیف کے واقعات اس عظیم خطرے کی دلیل ہے جو سعودی حکمرانوں کے اقتدار کے لئے سنجیدہ خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button