سعودی عرب

سعودی علماء اور بادشاہ کے درمیان اختلافات / آل سعود العالم چینل کے پروگرام پر سیخ پا

shiitnews sha abdullaسعودی بادشاہ نے کہا ہے کہ خواتین کو حق رائے دہی دینے کے سلسلے میں انھوں نے علماء سے مشورہ کیا تھا تاہم علماء نے تردید کردی / سعودی عرب کے عوام نے العالم نیوز ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کا زبردست استقبال کیا جس میں آل سعود کے مخالفین اور حامیوں کے انٹرویو نشر کئے گئے مگر آل سعود خاندان نے اس پروگرام پر شدید غیظ و غضب کا اظہار کیا۔
 رپورٹ کے مطابق ملک عبداللہ بن عبدالعزیز نے حال ہی میں عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور عوام انقلاب سے بچنے کی غرض سے خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے کا اعلان کیا اور دعوی کیا کہ انھوں نے اس سلسلے میں علماء کے ساتھ بھی مشورہ کیا تھا تا ہم سعودی عرب کے ایک سینئر عالم دین نے کہا ہے کہ ان سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور بادشاہ نے ان کے ساتھ کوئی مشورہ نہیں کیا ہے۔ 
سعودی عرب کے سینئر علماء بورڈ کے رکن صالح اللحیدان نے بادشاہ کی جانب سے خواتین کو حق رائے دہی دینے کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بادشاہ کے اس اعلان پر ضمنی طور پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمیں امید تھی کہ بادشاہ علماء کے ساتھ مشورہ کرنے کا دعوی نہ کرتے اور ہمیں امید تھی کہ بادشاہ کے اعلان سے قبل ان کے اس فیصلے سے مطلع ہوتے!۔
بادشاہ نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس کے بعد خواتین نہ صرف انتخابات میں ووٹ کا استعمال کرسکتی ہیں بلکہ وہ نامزد بھی ہوسکتی ہیں اور منتخب بھی ہوسکتی ہیں۔
سعودی بادشاہ نے دعوی کیا تھا کہ انھوں نے اس فیصلے سے قبل سینئر علماء سے مشورہ کیا ہے۔
ادھر سعودی عرب کے عوام نے العالم نیوز ٹی وی چینل کے ایک پروگرام کا زبردست استقبال کیا ہے جس میں آل سعود کے مخالفین اور حامیوں کے انٹرویو نشر کئے گئے مگر آل سعود خاندان نے اس پروگرام پر شدید غیظ و غضب کا اظہار کیا۔
روزنامہ "الریاض” نے اعتراف کیا ہے کہ شبکہ العالم نے اس پروگرام کا زبردست استقبال کیا ہے جس کا عنوان خواتین کو حق رائے دہی کے سلسلے میں سعودی بادشاہ کا اعلان تھا۔
اس روزنامے میں چھپنے والے "مطلق سعود الطیری” کے کالم میں آیا ہے: میں نے بھی یہ پروگرام دیکھا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ہمارے ایک مفکر کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور وہ اس پروگرام میں شریک ہوئے تھے "لیکن اگر یہ سعودی شہری اس پروگرام میں مدعو نہ ہوتا تو میں ایک منٹ بھی یہ پروگرام دیکھنے میں صرف نہ کرتا”، یہ مسئلہ اس چینل کی کامیابی اور ہماری شکست کا سبب تھا؛ اس سعودی مہمان کی اس پروگرام میں شرکت اس پروگرام کے ناظرین کی تعداد میں شدید اضافے کا باعث بنا۔ 
المطیری، جو العالم کے پروگراموں کو ایک منٹ بھی دینا گوارا نہ کرنے کا دعوی کررہے ہیں کیا یہ بتا سکیں گے کہ اس پروگرام سے انہیں کس نے مطلع کیا تھا اور انہیں کیا العالم کے سوا کسی اور چینل سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے پسندیدہ مہمان کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا گیا ہے؟!۔
المطیری نے اعتراف کیا ہے کہ العالم نے اس پروگرام میں بادشاہ کے اعلان کے حامیوں اور مخالفین کو برابر کا وقت دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشہ ور اور غیر جانبدار نیوز چینل ہے۔ 
المطیری نے اپنے مضمون میں دعوی کیا ہے کہ اس طرح کا رجحان عربی میں پروگرام نشر کرنے والے تمام چینلوں سے متوقع ہے لیکن العالم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی!!۔
المطیری نے اس پیشہ ور اور غیر جانبدار چینل کا "مکمل بائیکاٹ” کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور لکھا ہے: یہ چینل "دشمن کا ہتھیار” ہے؛ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپنے قارئین کو اس چینل کے بارے میں نئی باتوں سے آگاہ کروں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں اور مفکرین کو اس چینل سے گفتگو کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے اور ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ یکے بعد دیگرے قطار باندھ لیں تا کہ ہماری تصویر اس چینل سے نشر کی جائے؟۔
یاد رہے کہ العالم سے سعودی عرب اور یمن و بحرین حتی کہ مصر کے انقلابات کے بارے میں نشر ہونے والے اکثر پروگراموں میں سعودی دانشور بھی شرکت کرتے رہتے ہیں اور اگر المطیری کو پہلی مرتبہ اس حقیقت سے آگہی حاصل ہوئی ہے تو اس کی وجہ وہ خود ہی بتاسکتے ہیں لیکن ان کی یہ بات بڑی عجیب ہے کہ وہ ایک طرف سے العالم کو پیشہ ور اور غیر جانبدار چینل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف سے اس کو "دشمن کا ہتھیار” سمجھتے ہیں اور پھر اپنے عوام اور دانشوروں سے کہتے ہیں کہ "اس چینل کا بائیکاٹ کریں”، کیا یہ روزنامہ الریاض اس کے کالم نگاروں کی "پیشہ ورانہ اور غیرجانبدار” صحافت کا تقاضا ہے؟۔

متعلقہ مضامین

Back to top button