سعودی عرب

سعودی عرب میں 11 مارچ یوم الغضب کا اعلان / سیکورٹی ریڈ الرٹ ا

Saudi-Arabسعودی عرب کے عوام اور سیاسی و سماجی و دینی تنظیموں  اور جماعتوں  نے کل (11 مارچ بروز جمعہ) کو آل السعود کی مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف یوم الغضب منانے کا دن قرار دیا ہے۔ وہ کل آل السعودی کی طویل المدت مطلق العنانیت کے خلاف اپنے عشروں  پر محیط غیظ و غضب کا اعلان کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک طرف سے حکومت نے مظاہروں  پر پیشگی پابندی لگائی ہے اور دوسری طرف سے مفتی حضرات نے بھی مظاہروں  کو شریعت اسلامی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حرام قرار دیا ہے ۔ جبکہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ یوم الغضب ضرور منایا جائے گا اور کوئی بھی چیز ان کے مظاہروں، جلسے جلوسوں  اور ریلیوں  کا راستہ نہیں روک سکے گی۔
– آل سعود کا ظلم و جبر عوامی مطالبات کا سد باب نہیں کرسکے گا
سعودی عرب کو گذشتہ برسوں  کے دوران اندر سے کبھی بھی کسی جلسے یا جلوس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے اور اگر کہیں اسے سامنا پڑا بھی ہو تو شدید ترین سینسر کی بنا پر اس کی خبر بیرونی دنیا تک نہیں پہنچ سکی ہے اور اب تیزرفتار ترین مواصلاتی دور میں سعودی عوام نے احتجاج کا اعلان کیا ہے تو پوری اسلامی دنیا نیز دنیائے کفر و شرک و استکبار کی نظریں حرمین شریفین کی سرزمین پر لگی ہوئی ہیں کہ آخر ہوگا کیا؟ مسلم امہ اپنے آپ سے پوچھتی ہے کہ کیا حرمین شریفین مسلم دنیا کو واپس کئے جائیں گے؟ کیا بقیع کی تعمیر ہوسکے گی؟ کیا اسلام کے آثار قدیمہ کے انہدام کا سلسلہ رک سکے گا؟ کیا حرمین شریفین کے عوام کو ان کا اصل اور بنیادی انسانی و اسلامی مقام مل سکے گا؟ کیا انہیں رائے دینے اور اپنی رائے سے اپنے مقدرات کے تعین کا حق مل سکے گا؟ کیا سرزمین حجاز و قوم حجاز عالمی صہیونزم کے مد مقابل عالم اسلام کی صف میں شامل ہوسکے گی؟ حجاز کے عوام نے تو اپنی کوششوں  کا آغاز کردیا ہے اور اب انہیں مسلمانوں  کی دعا اور اخلاقی و ابلاغی حمایت کی ضرورت ہے…
سعودی ملٹری و سیکورٹی فورسز کو ریڈ الرٹ کردیا گیا ہے
سعودی عرب میں یوم الغضب کے اعلان کے پیش نظر ـ پورے آرام و سکون سے دسیوں  برسوں  تک اس سرزمین کے عوام پر فرمانروائی کرنے کے مزے لوٹنے والے خاندان کو حقیقتاً خوف و ہراس لاحق ہوگیا ہے۔
سعودی حکمرانوں  نے خوف کے مارے اندرونی سیکورٹی فورسز، مسلح افواج: بری، بحری اور فضائی فوج، اور خفیہ اداروں  کو ریڈ الرٹ دے دی ہے اور تمام افواج سے کہا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے مقام پر حکم کے منتظر رہیں اور کہیں بھی نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ تمام فورسز کی چھٹیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں اور چھٹی پر جانے والوں  کے علاوہ غیر حاضر افراد کو بھی فوری طور پر متعلقہ مراکز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں  نے کہا ہے کہ توقع نہیں کی جاتی کہ سعودی حکومت مظاہروں  کا دن قریب آنے پر ملک میں ایمرجنسی نافذ کریں۔
سعودی عرب نے ایک ماہ قبل بھی تیونس اور مصر میں انقلابی تحریکوں  کے آغاز پر اپنی 50 فیصد فورسز کو الرٹ کردیا تھا.
واضح رہے کہ حکومت نے مظاہرے ممنوع اور حکومت کے حاشیہ نشین مفتیوں  نے یہ مظاہرے حرام قرار دیئے ہیں۔
کرفیو کا نفاذ ہوسکتا ہے
یوم الغضب کو پوری سعودی مملکت میں کرفیو کے نفاذ کے خدشات بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔
سعودی سرگرم راہنماؤں نے سماجی نیٹ ورک "فیس بک” کے ذریعے کل کے روز جمعہ کو یوم الغضب کا اعلان کرکے اس روز پورے ملک میں حکمران خاندان کے خلاف مظاہروں  اور احتجاجی ریلیوں  کا اعلان کیا ہے۔ فیس بک میں 20 ہزار کے قریب سعودی شہریوں  نے اس دعوت کو مثبت جواب دیا۔
دریں اثناء سعودی وزیر داخلہ نے سعودی استبداد سے ن‍قاب الٹاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی نے مظاہرہ کیا یا کسی بھی طریقے سے معاشرے میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو ہماری (یعنی سعودیوں  کی) سیکورٹی فورسز اس کو قرار واقعی سزا دیں گی؛ جس سے سعودی عرب کے مظلوم عوام کی یہ بات سچ ہوکر ثابت ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں سزائیں سیکورٹی فورسز سناتی اور نافذ کرتی ہیں اور ان پر کسی قسم کا مقدمہ چلانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی!.
سعودی خاندان کی حکومت کے تحفظ پر مأمور (!؟) اکابرین علماء نے بھی گذشتہ اتوار کو اعلان کیا تھا کہ "مظاہرے حرام اور خلاف شرع ہیں”. انھوں  نے قبل ازیں دوسرے عرب و اسلامی ملکوں  کے انقلابات کو حرام قرار دیا تھا اور ایک مفتی نے تو لیبیا کے ہزاروں  مسلمانوں  کے خون  سے ہولی کھیلنے والے آمر کرنل قذافی کو ولی الامر قرار دیا تھا۔
ایران کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی اور علمائے مسلمین کے اتحاد کے سربراہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے ان فتوؤں کی مذمت کرتے ہوئے مصر کے بعض اور سعودی عرب کے اکثر مفتیوں کو اپنے فتؤوں  پر نظر ثانی کی دعوت دی ہے۔
– وزیر خارجہ سعودی الفیصل نے عوام کو دھمکی دی ہے
سعودی وزیر خارجہ سعود بن فیصل بن عبدالعزیز نے اپنے چچاجان نائف بن عبدالعزیز آل سعود کی دھمکیوں  کو تقویت پہنچاتے ہوئے عوام کے بنیادی حقوق اور انسانی حقوق اور عوامی مطالبات اور ان کی خواہشات کو نظر انداز کیا اور اپنے خاندان کی حاکمیت بچانے کے سلسلے میں موقف اپناتے ہوئے کہا: احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انھوں  نے 1930 کے عشرے سے لے کر آج تک کے طویل عرصے کے دوران عوام کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کو آل سعود کی شان کے خلاف ورزی قرار دیئے جانے کی اذیت ناک داستان کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا: عوام اپنے مطالبات کے لئے حکومت سے مذاکرات کریں؟!۔
سعود الفیصل نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے بھی ملک میں اصلاحات کے عمل کو غیر ممکن قرار دیا اور کہا: احتجاج اور مظاہرے، دنیا کے سب سے زیادہ تیل درآمد کرنے والے ملک میں کسی قسم کی اصلاحات کا سبب نہیں بن سکیں گے۔
سعودی الفیصل نے بھی چچا نائف کی طرح سعودی خاندان کے دربار سے وابستہ مفتیوں  کے فتووں  اور شرعی احکام (!!) کا حوالہ دیا اور کہا: سعودی علماء نے اپنے بیان میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی (ص) کی روشنی میں ملک میں ہر قسم کا احتجاج حرام اور خلاف شریعت قرار دیا ہے۔
انھوں  نے کہا: "الشرقیہ، الغربیہ، الشمالیہ اور الجنوبیہ” سمیت پورے ملک میں مطالبات تک پہنچنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔
انھوں  نے کہا: اصلاحات مظاہروں  اور فتنہ انگیزی پر مبنی اقدامات کے ذریعے حاصل نہیں ہوتیں؛ ملک میں ہر قسم کی تبدیلی سعودی عوام کی جانب سے ہونی چاہئے۔
یہ بات راقم کی سمجھ میں نہیں آئی کہ تبدیلی آنے سے ان کا مطلب کیا ہے اور اگر تبدیلی آنے کے عمل کو تسلیم کیا جاتا ہے تو مظاہروں  کو حرام قرار دینے پر اتنا اصرار کیوں  ہے؟۔
انھوں  نے کہا: اور ہمیں سعودی عرب میں بیرونی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم اس سلسلے میں ہر بڑھتا ہوا ہاتھ کاٹ دیں گے۔ (!؟)
سوال یہ ہے کہ ابھی سے بیرونی ہاتھ کا ذکر کیا مظاہروں  کو کچلنے کا پیشگی بہانہ نہیں ہے؟ کیا یہ بیرونی ہاتھ سعودی عرب کے مظلوم عوام کا ہاتھ ہی نہیں ہے جس کو سعودی حکمران عشروں  سے ہربہانے سے کاٹ رہے ہیں؟۔
سعود نے عوام سے کہا: مظاہروں کی صورت میں تمہیں خوفناک نتائج بھگتنے پڑیں گے!۔
ویسے اپنے ہی بھتیجے کے ہاتھوں  قتل ہونے والے سابق سعودی بادشاہ فیصل بن عبدالعزیز کے بیٹے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بیرونی ہاتھ کس کا ہے؟ اور وہ کونسی بیرونی قوت ہے جس کو سعودی عرب میں انقلاب اور عوام و جمہوری حکومت اور اصلاحات اور خاص طور پر آل سعود کے خاندان کی سرنگونی سے اتنی دلچسپی ہوسکتی ہے؟۔
ابن فیصل نے ایسے حال میں مذاکرات کا جھوٹا دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب میں آج تک جس کسی نے بھی اپنے حقوق مانگے ہیں اس کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے سعودی اذیتکدوں  میں پہنچایا گیا ہے اورنہایت وحشیانہ روشوں  سے اذیتیں دی گئی ہیں اور اسی سلسلے میں سینکڑوں  یا شاید ہزاروں  سعودی شہری بغیر مقدمہ چلائے جیلوں  میں پڑے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں: سعودی عرب مظاہروں  پر پابندی کا حکم فوراَ واپس لے
ہیومین رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الگ الگ بیانات میں سعودی عرب کے حکمرانوں  سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر مظاہروں  پر پابندی کا حکم منسوخ کردیں اور عوام کو شہری حقوق سے محروم نہ کریں۔
ہیومین رائٹس واچ نے کل بدھ کو اپنے بیان میں زور دے کر کہا ہے کہ "سعودی حکام فوری طور پر اپنے شہریوں  کے پرامن مظاہروں  پر سے پابندی اٹھا دیں اور اس حکم کے نفاذ سے چشم پوشی کریں۔
ہیومین رائٹس واچ کے مشرق وسطی کے شعبے کے سربراہ سارہ لی وٹسن (Sarah Lee Hhitson) نے اپنے بیان میں کہا ہے: سعودی عرب کے حکام اپنے عوام کے پرامن مظاہروں پر پابندی لگا کر ان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ "ان (سعودی باشندوں) کو مکمل شہری حقوق حاصل نہیں ہیں اور وہ عمومی امور میں حصہ لینے کے حقدار نہیں ہیں”۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریاض آفس نے بھی سعودی معاشرے میں عوامی حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: سعودی حکام کو بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے عوام کو پرامن احتجاج اور مظاہروں  کی اجازت دے دینی چاہئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے شعبے کے سربراہ "فلپ لوتھر” نے کہا: سعودی حکومت کو وہ تمام پابندیاں فوری طور پر اٹھا لینی چاہئیں جن کی ہر طرف سے مذمت ہورہی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button