سعودی عرب
عرب ممالک میں عوامی انقلاب اور سعودی حکمرانوں کی گھبراہٹ

واضح رہے کہ سعودی بادشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز گذشتہ تین ماہ سے ملک میں موجود نہ تھے اور اپنی علالت کے باعث ملک سے باہر علاج معالجے میں مصروف تھے تاہم اسی اثنا میں عرب ممالک میں اٹھنے والی عوامی انقلابی تحریکوں کے اثرات سے سعودی عرب میں بھی کئی ایک مظاہرے ہو چکے ہیں جن میں عوام نے بنیادی حقوق کی فراہمی جیسے کئی اہم مطالبات کئے ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تین ماہ میں تیونس سے بیداری کی لہر اٹھنے سے تیونس کے شاہ زین العابدین بن علی جو کہ عوامی انقلاب سے گھبرا کر بھاگ نکلے اس کو سعودی عرب میں پناہ حاصل ہوئی ہے جبکہ دوسرے بڑے غاصب حکمران حسنی مبارک بھی سعودی عربیہ جا پہنچے ہیں ۔
سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے علاج کے لیے تین ماہ ملک سے باہر گزارنے کے بعد اپنی واپسی پر سعودی شہریوں کے لیے اضافی مراعات اور سہولیات کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق بادشاہ نے سوشل سکیورٹی، رہائشی منوصبوں اور بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے اضافی رقم کا اعلان کیا ہے۔
چھیاسی شاہ عباللہ نے پچھلے تین ماہ سعودی عرب سے باہر گزارے ہیں۔ وہ ستائیس نومبر کو امریکہ کے شہر نیو یارک روانہ ہوئے تھے جہاں ان کے ریڑھ کی ہڈی کے دو آپریشن ہوئے۔
بائیس جنوری کو وہ مراکش گئے جہاں پر وہ آپریشن کے بعد درکار آرام لیتے رہے۔ تیونس میں ہونے والے عوامی احتجاج اور صدر زین العابدین کے اقتادر سے ہٹائے جانے کے وقت شاہ عبداللہ مراکش میں موجود تھے۔ مصر میں احتجاج اور صدر مبارک کے نکالے جانے کے وقت بھی وہ مراکش میں ہی تھے۔
پچھلے دو ماہ میں مشرق وسطی میں عوامی احتجاج کی لہر نے خطہ کا سیاسی منظر تبدیل کر دیا ہے۔
سعودی ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے پڑوسی ملک بحرین کے شاہ حماد بھی بدھ کو ریاض پہنچ رہے ہیں۔ بحرین میں بھی عوامی احتجاج کی تحریک شروع ہوئی ہے اور عالمی برادری نے بحرینی حکام کے سخت رد عمل اور مظاہرین کے ساتھ سلوک پر خاصی تنقید کی ہے۔