سعودی عرب

سعودی میں تکفیری مفتیوں کے خلاف قانونی کاروائی

Saudi_Arab_Muftiesسعودی "شبکةالاخبار” نے لکھا ہے کہ سعودی مجلس شوری کے سربراہ "عبداللہ بن محمد آل الشیخ” نے اسلامی و قضائی (جوڈیشل) امور کے کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ فتؤوں کے موضوع کی تفتیش کے لئے ماہرین کا ورکنگ گروپ تشکیل دے۔
سعودی مجلس شوری کے سربراہ نے  یہ ہدایات، رکن مجلس "زہیراللہ الحارثی” کے اس شکوے کے بعد دی ہیں کہ "یہ فتوے اب تکفیر کی حدود سے تجاوز کرکے دین کے اصولوں، اقدار اور قومی یکجہتی کو مخدوش کرنے لگے ہیں اور اس طرح یہ فتوے سعودی سرکاری نظام کو کمزور کرنے لگے ہیں اور دوسرے ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو متأثر کررہے ہیں”۔
الحارثی نے کہا: نادرالظہور تکفیری فتوؤں کے روز افزوں سلسلے کے سامنے خاموشی "ملک کے خلاف ایک جرم” ہے وہ ملک جو اس وقت انسانوں کا خون بہانے اور دوسروں کی تکفیر اور انہیں جلاوطن کرنے کے بازار میں تبدیل ہوگیا ہے”۔
دریں اثناء قبل ازیں دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف قائم ہونے والے بین الاقوامی تنظیم کے سربراہ "علی السرائی” نے سعودی عرب کے تکفیری علماء پر فرد جرم عائد کرنے کے سلسلے میں ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت تکفیری مفتیوں کو دہشت گردوں کے زمرے میں قرار دیا جاسکے گا اور انہیں یورپی یونین کی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
حال ہی میں 47 ممالک کے مندوبین کی موجودگی میں جنیوا میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چودہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے علی السرائی نے تکفیری علماء و شیوخ کو مجرم قرار دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں درج ہونے اور ان یورپی اتحاد کے ممالک کی حدود میں ان کے داخلے پر پابندی کی اشد ضرورت ہے۔
السرائی نے کہا: اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی کوششیں یکجا اور ہماہنگ ہوں اور ان تکفیریوں اور ان کے حامیوں اور دوسروں کو انسانوں کے خلاف دہشت گردی پر اکسانے والوں اور ان کا خون بہانے کی ترغیب دلانے والوں کا مقابلہ کرنے کی نیت سے ان کے خلاف متحدہ بین الاقوامی محاذ قائم کیا جائے، تا کہ انہیں عدل و انصاف کے سپرد کیا جاسکے۔
السرائی نے اقوامی متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے ساتھ نشست میں تکفیری شیوخ اور انسانوں کا خون بہانے کے سلسلی میں ان کے فتوؤں کے حوالے سے مستند دستاویزات بھی اس کمیٹی کو فراہم کی ہیں۔
واضح رہے کہ بعض سعودی شیوخ اور مفتیوں کے متنازعہ فتؤوں کی وجہ سے سعودی عرب کے سماجی نظام میں خلل پڑ گیا ہے اور سعودی عرب کے خاموش عوام نے بھی آخرکار شدید خطرات کے باوجود بولنے اور اعتراض کرنے کا آغاز کردیا ہے۔
یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تکفیری فتوے دینے والے سعودی مفتی حجاز پر حاکم خاندان آل سعود سے وابستہ اور ان ہی کے حکم پر منصب افتاء پر فائز ہیں اور سعودی عرب مختلف ممالک میں وہابیت کی ترویج اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے حوالے سے ان مفتیوں کے فتوے ہتھیار کے عنوان سے بروئے کار لاکر دہشت گردوں کے ٹولے قائم کرکے ان سے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کروانے کے حوالے سے مورد الزام ہے۔
مآخذ: ابنا

متعلقہ مضامین

Back to top button