Uncategorized

طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے والا پاراچنار کا قیصر حسین 8 ماہ گزرنے کے باوجود رہا نہ ہو سکا

shiitenews paracahnar shiaقیصر حیسن 25 مارچ 2011ء کو لوئر کرم بگن کے علاقے میں دیگر افراد سمیت اس وقت اغوا ہوا، جب طالبان اور ان کے مقامی ہمدردوں نے پاراچنار کے مسافروں سے بھری فلائنگ کوچز کے قافلے پر دن دیہاڑے حملہ کرکے مزاحمت کرنے والے کئی افراد کو قتل کرنے کے بعد چالیس سے زیادہ مسافروں کو اغوا کیا تھا۔ اغوا شدہ افراد کی رہائی کے لئے حکومت و گرینڈ جرگہ نے کئی راؤںڈز کئے اور آخر کار

طالبان کو تیس ملین روپے تاوان ادا کرکے سب اغوا افراد کے رشتہ داروں کو ان کے پیاروں کو رہائی کی خوشخبری سنا دی گئی لیکن طالبان نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر کے قیصر حسین کے علاوہ باقی تمام اغوا شدہ افراد کو رہا کر دیا لیکن قیصر حیسن 8 ماہ گزرنے کے باوجود رہا نہ ہو سکا۔ اسلئے قیصر حیسن کے والدین دوست و رشتہ دار ہر آنے والے دن بالخصوص عید پر قیصر حیسن کی راہ تکتے خون کے آنسو روتے ہیں۔
قیصر حسین کے دوستوں اور رشتہ داروں نے بتایا کہ قیصر کے والدین نے غربت و افلاس کے باوجود دن رات محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں پڑھایا، قیصر نے فزکس میں ایم ایس سی تک تعلیم حاصل کی، قیصر نے بھی اپنے والدین کی محنت کا بھرپور صلہ دیتے ہوئے سکول کالج و یونیورسٹی میں امتیازی نمبر حاصل کئے۔ قیصر کے دوستوں اور رشتہ داروں کے مطابق کرم ایجنسی میں گذشتہ ماہ نیا امن معاہدہ ہونے سے پہلے تک طالبان قیصر کی رہائی کے لئے 13 لاکھ روپے تاوان مانگ رہے تھے، اسلئے قیصر کے دوستوں و رشتہ داروں نے نئے امن معاہدے سے پہلے حکومت و گرینڈ جرگہ کے اراکین کو نیا معاہدہ کرنے سے پہلے قیصر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے جواب میں بعض جرگہ ممبران نے ہمیں یقین تک دلایا تھا کہ قیصر کی رہائی کے بغیر ہم نئے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے لیکن قیصر کے والدین سمیت ہم سب کو دھوکے میں رکھا اور نئے معاہدے پر دستخط کر لئے۔ یہ ہم سب کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔
قیصر حسین کے دوستوں اور رشتہ داروں کے مطابق حکومت و جرگہ اراکین نے قیصر حیسن کو رہا کئے بغیر گزشتہ ماہ نئے معاہدے پر دستخط کر کے طالبان کو پاراچنار کے مزید افراد اغوا کرنے کا گرین سگنل دیا۔ کیونکہ نیا معاہدہ مری معاہدے کا تسلسل ہے اور مری معاہدے کے اہم شرائط میں سے سرفہرست مغویوں کی رہائی، ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنا کر ٹریفک کے لئے کھول دینا اور اس کے بعد مثاثرین یا آئی ڈی پیز کی رہائی ہے لیکن حکومت نے مغویوں کی رہائی والی سرفہرست شرط کو نظر انداز کر دیا اور مغویوں کی رہائی میں قیصر حیسن کی رہائی کو نظر انداز کر کے دراصل خود ہی طالبان کو یہ پیغام دیا کہ طالبان مزید پاراچناری افراد کو بھی اغوا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے کے چند دن بعد پشاور سے پاراچنار کے ڈاکٹر جمال کو اغوا کیا گیا۔ اگر حکومت اور گرینڈ جرگہ معاہدے پر دستخط سے پہلے قیصر کو رہا کروا دیتے تو ڈاکٹر جمال اغوا ہی نہ ہوتے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے بعض افرد کے ذریعے قیصر کی رہائی کے لئے تیس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ قیصر حسین کے والدین و رشتہ دار غربت کی وجہ سے قیصر کی رہائی کے لئے مختلف لوگوں سے قرض لے کر اب تک بمشکل دس لاکھ روپے ہی جمع کر پائے تھے کہ ان پر یہ خبر پہاڑ بن کر گری اور وہ اپنے پیارے بیٹے کے فراق میں خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ قیصر کے دوستوں اور رشتہ داروں کے مطابق قیصر کی رہائی حکومت اور گرینڈ جرگہ کی ذمہ داری بنتی ہے، اسلئے جھوٹے وعدے اور دھوکہ دہی کرنے کی بجائے حکومت و گرینڈ جرگہ قیصر کی رہائی کے لئے عملی اقدامات کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button