عراق

عراق میں آل سعود و آل ثانی کے زیر سرپرستی دہشت گردی کی 22 کاروائیاں

iraqرپورٹ کے مطابق، دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی طرف سے دہشت گردوں کو عراق میں واپس لوٹ آنے کی دعوت کے بعد عراق کو کل گذشتہ دو برسوں میں ریکارڈ قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا اور 14 شہروں میں دہشت گردی کی 22 کاروائیوں کے نتیجے میں 100 سے زائد عراقی روزہ دار شہری شہید ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق اکثر حملوں کا نشانہ سیکورٹی مراکز اور سرکاری فورسز تھیں۔
دہشت گردی کی شدید ترین کاروائی بغداد سے 25 کلومیٹر شمال میں التاجی کے علاقے میں ہوا جس کے نتیجے میں 42 عراقی شہید اور 40 زخمی ہوگئے۔ التاجی میں ہونے والے ایک دھماکے میں 10 رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
بغداد سے 90 کلومیٹر شمال میں الضلوعیہ کے علاقے میں مسلح دہشت گردوں نے فوج کی ایک چوکی پر حملہ کرکے 15 جوانوں کو قتل کیا چار جوانوں کو زخمی اور ایک کو اغوا کرلیا۔
بغداد کے مشرق میں صدر سٹی میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد شہید اور 22 زخمی ہوگئے جبکہ مغربی بغداد کے علاقے الیرموک میں بم دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے۔
بغداد کے شمال میں الحسینیہ کے علاقے میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں 2 عراقی باشندے جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے۔
نیز بغداد کے شمال میں الطارمیہ کے علاقے میں کار بم دھماکے میں 11 افراد زخمی ہوئے۔
بغداد سے 60 کلومیٹر شمال میں البعقوبہ کے علاقے میں متعدد بم دھماکوں کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر دھماکوں میں فوجی مراکز، گشت کرنے والی پولیس اور فوج کی نفری کو نشانہ بنایا گیا۔
کرکوک کے چار مقامات پر کار بم دھماکوں میں سات پولیس اہلکاروں جان بحق اور 29 افراد زخمی ہوئے۔
عراق پر 2003 میں امریکی قبضے سے لے کر اب تک دہشت گردوں کے خونی حملوں کا سامنا ہے اور دہشت گردوں کو امریکہ، اسرائیل، قطر، سعودی عرب اور حال ہی میں ترکی، کی حمایت حاصل ہے۔
جون 2012 میں عراق میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں 280 افراد جان بحق اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں مسلسل شکست کے بعد القاعدہ نے حال ہی میں ایک بار پھر عراق میں سرگرم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے فطری قاتلوں اور خونخواروں کو عراق میں لوٹ آنے کی دعوت دی ہے۔
کل کی کاروائیاں 2010 کے بعد، سب سے بڑی دہشت گردانہ کاروائیاں تھیں۔ 2010 میں اسی طرح کے حملوں میں ایک ہی دن کے دوران 110 افراد شہید ہوگئے تھے۔

ــ عراق میں دہشت گردی؛ عرب ممالک ملوث
بعداد یونیورسٹی کے استاد کا کہنا تھا کہ یہودی ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنے والے دہشت گرد ٹولے اور عرب حکومتیں عراق میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر حازم الشَمری نے العالم کے ساتھ بات چـیت کرتے ہوئے کہا: شام میں منہ کی کھانے والے دہشت گرد ٹولے اپنی آبرو کے تحفظ کے لئے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ غاصب صہیونی ریاست کے حامی عرب حکمران، عراق میں اندرونی فتنہ انگيزی کی نیت سے دہشت گردی کی کاروائیاں کروا رہے ہیں اور یہ بات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہيں رہی کہ یہ حکمران صہیونیوں کے مفاد میں عراق اور دوسرے عرب اور اسلامی ممالک میں خونی کھیل کھیل رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی اب طشت از بام ہوگئی ہے کہ یہ حکمران یہ سب امریکہ اور غاصب صہیونی ریاست کے مفادات کے لئے کررہے ہیں ورنہ تو ان کاروائیوں سے ان حکمرانوں کو ذاتی یا قومی سطح پر نہ صرف کوئی فائدہ نہيں پہنچ رہا بلکہ قوموں کے ذہن میں ان کا منفی اور کریہ کردار، ان کے مستقبل کے لئے خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
انھوں نے سوموار کے دن العالم کو بتایا کہ ان حملوں سے علاقے میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے عرب حکمرانوں کا مقصد یہ جتانا ہے کہ عراقی حکومت اپنے عوام کے تحفظ کی اہلیت نہيں رکھتی اور یوں وہ عراق کی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنے کے لئے کوشاں بعض شکست خوردہ سیاسی عناصر بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے عراق کی صورت حال کو تناؤ سے دوچار کرنے کے لئے دہشت گردوں کی ان کاروائیوں کے لئے ماحول فراہم کرنے میں کردار ادا کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ عراق میں پیر کے روز ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں 107 عرافی روزہ دار شہید اور 300 سے زائد زخمی ہوئے اور ان حملوں کا نشانہ بننے والے اکثر شہید اور زخمی عام شہری تھے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button