ایران

خرم شہر کواللہ نے آزاد کرایا

shiitenews_khuram_city4  مئی 1982 کوجب صدام کی بعثی فوج کے ڈیڑھ سالہ قبضے کے بعد ایران اسلامی کے سرفروشوں اورجانبازان اسلام نے خرمشہر کوواپس اپنی آغوش میں لیا تواس وقت دنیا کے بڑے بڑے سیاسی اوردفاعی نظریہ پردازوں کے ہاتھوں سے طوطے اڑگئے اورعالمی سطح پردفاعی اورجنگی اسٹریٹیجی وحکمت عملی کا ازسرنوجائزہ لیا جانے لگا۔
ایران پرجارحیت کے کچھ ہی دنوں بعد صدام کی بعثی فوج نے جسے دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی خرمشہر پرقبضہ کرلیا اوراس کے ہمسایہ شہرآبادان کواپنے محاصرے میں لے لیا ۔
خرمشہرجس پرصدام کی بعثی فوج کا ڈیڑھ سال تک قبضہ تھا اس وقت سیاسی اورفوجی میدانوں میں ایران اورعراق دونوں کی فتح وشکست کے معیار میں تبدیل ہوچکا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ طاقت کے نشے میں چورامریکہ اوربڑی طاقتوں کا غلام صدام انتہائی متکبرانہ لہجے میں کہتا تھا کہ اگرایرانیوں نے خرمشہرواپس لے لیا توہم بصرہ شہر کی کنجی خود بخودایرانیوں کوپیش کردیں گے۔
صدام اوراس کے حامیوں کواس بات کا پختہ یقین تھا کہ جتنی جنگی طاقت اورمشینری ان کے پاس ہے اس کے پیش نظرایرانی جانبازکبھی بھی خرمشہرواپس نہيں لے سکتے اوراسی بناپروہ خرمشہرکوایران کے دروازے کے طورپراستعمال کرکے ایران کے ديگرشہروں پربھی قبضے اورنتیجے میں اسلامی انقلاب اوراسلامی نظام کے خاتمہ اورنابودی کا بھی خواب دیکھ رہے تھے۔
درحقیقت ظالم وجارح صدام نے دشمنان اسلام اوراپنے سامراجی آقاؤں کے ہی حکم پرایران پرجارحیت کی تھی اوربہانہ یہ بنایا کہ وہ سن 1975 کے الجزائرمعاہدے کوتسلیم نہیں کرتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اوراسلامی نظام کونابود کرنے کے لئے اس وقت کی تمام مشرقی اورمغربی طاقتیں ایک ہوگئی تھیں۔ جہاں مغرب اورمشرق کی طاقتیں صدام کی فوجی اوراسلحہ جاتی مددکررہی تھیں وہیں علاقے کے رجعت پسندعرب حکام صدام کو سردارقادسیہ کا لقب دینے پر خوش تھے۔
ظاہرہے ایسے میں کون یہ تصورکرسکتا تھا کہ ایران کے جوان جنھوں نے اپنی سالہا سال کی جدوجہد کے بعد اسلامی انقلاب کوکامیاب بنایا ہے اورنئے اسلامی نظام حکومت کی داغ بیل ابھی ڈالی ہے اوران کے پاس ایک تجربہ کاروآزمودہ فوج بھی نہيں ہے کیسے خرمشہرکوواپس لے سکيں گے؟
خرمشہر کوواپس لینا تودورکی بات ان باطل قوتوں کواس بات کا پورایقین تھا کہ ایرانی سپاہی ديگرشہروں کا بھی دفاع نہیں کرسکیں گے، مگر باطل قوتوں نے اندازہ لگانے میں غلطی کا ارتکاب کیا وہ شاید یہ بھول گئے تھے ایمان اورحقیقی اسلام کے جذبے سے سرشارجوانوں کی طاقت کھبی بھی کثرت فوج یا اسلحوں وفوجی ہتھیاروں کے تکثرسے مرعوب نہيں ہوتی۔
34 روز تک ایران کے جوانوں اورعام شہریوں نے صدام کی بعثی حکومت کا جوجدیدترین اسلحوں سے لیس تھی آخری دم تک مقابلہ کیا، شہر کی ایک ایک گلی اور چپہ چپہ ایرانی مدافعین کے خون سے رنگین ہوگیا اوریوں یہ شہر جواستقامت وپائمردی کی علامت بن چکا تھا بالاخرصدامیوں کے قبضے میں چلاگیا۔
ایران کے جوانوں اور عشق اسلام سے سرشارجیالوں نے ڈیڑھ برس تک انتہائي استقامت وپائمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عظیم الشان رہبرکی مدبرانہ اورعالمانہ قیادت اپنے کمانڈروں کی شاندارحکمت عملی کی بدولت عصرحاضرکا وہ بے مثال دفا‏عی اوررزمیہ کارنامہ رقم کیا کہ صدام اور اس کے سبھی آقاؤں کے ہوش اڑگئے اورمشرق ومغرب کی طاقتوں کے ذریعہ بچھائی گئی جنگی بساط سمیٹ دی گئی، دوست تودوست دشمن بھی یہ کہنے اوراعتراف کرنے پرمجبورہوگئے کہ خرمشہرکوجس طرح سے ایرانی جوانوں نے آزادکرایا ہے اس نے روایتی جنگی حکمت عملی اوراندازوں پرخط بطلان کھینچ دیا ہے ۔
خرمشہر کی آزادی کا اعلان اس قدرحیرت انگیزامرتھا کہ نہ صرف پورا ایران بلکہ دنیا کے گوشہ وکنارمیں بسنے والے انقلاب دوست وجد میں آگئے۔ پورایران سراپا جشن وسروربن گیا تھا اورہرشخص ایک دوسرے سے گلے مل کراشک شوق بہا رہا تھا گویا اس کا یوسف گم گشتتہ واپس آگیا ہو۔
جانبازان اسلام کی اس شاندارکامیابی کی عظمت کااندازہ لگانے کے لئے یہی جاننا کافی ہے کہ جارح عراقی فوج خرمشہرکی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ سے پہلے اپنے فوجیوں کویہ باورکرانے کی کوشش کررہی تھی کہ خرمشہرکا دفاع، بصرہ اور بغداد سمیت تمام عراقی شہروں کے دفاع کے مترادف ہے، اسی لئے جیسے بھی ہوخرمشہر کا دفاع کیا جائے ۔
اس علاقے میں موجود بے پناہ فوجی سازوسامان سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ عراق خرمشہر پر قبضے کو اس غیر مساوی جنگ میں اپنی کامیابی کی علامت کے طورپرپیش کرتا ہے ، اس نے طے کررکھا تھا کہ جیسے بھی ہوخرمشہر پراپنا قبضہ برقراررکھے۔
جس وقت بیت المقدس 1 اوربیت المقدس 2 نامی جنگی کاروائیاں ایرانی جوانوں نے مکمل کرلیں اورجانبازان اسلام خرمشہر کے اطراف میں تعینات ہوگئےتواس وقت بعثی حکام جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ عوام پریہ ظاہرکرنے کی کوشش کررہے تھے کہ خرمشہرمیں عراقی فوج پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، اس طرح وہ اپنی شکست خوردہ فوج کا جوہمت ہارچکی تھی، حوصلہ بڑھانے کی ناکا کوشش کررہے تھے۔
خرمشہر میں موجود عراقی فوجیوں کا محاصرہ کرلینے کے بعد جانبازان اسلام نے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں اس شہرکوبعثی فوج کے ناپاک وجود سے آزاد کرالیا اور35 ہزار سے زائد عراقی فوجیوں کوگرفتارکرلیا ۔
بیت المقدس فوجی آپریشن کے نام سے خرمشہر کی آزادی کے لئے ایران کے مومن جیالوں کی فداکاری اورجنگی کاروائی، جودنیا بھرکی جنگی کاروائیوں میں اپنا منفردمقام رکھتی ہے، آج بھی بڑی طاقتوں کے دل ودماغ بھی حاوی ہے اورایرانی جوانوں کی اسی فداکاری اورابہت کوہی دیکھ کرآج دشمن، ایران کوآنکھ دکھا نے کی جرات نہيں کرپارہاہے۔ خرمشہر کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ نے 19 مہینوں تک اس شہر پربعثی فوج کے قبضے کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے سرحدی صوبے خوزستان کے اوربھی علاقوں اورشہروں کوآزاد کرانے کا راستہ ہموارکیا اوردشمن پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے بعد پھروہ سنبھل نہ سکا۔
خرمشہرکے محاذ پر دشمن کی شکست اتنی سنگین تھی ک صدام کے وہ حامی جو ابتک صدام کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے اب اس فکرمیں لگ گئے کہ جیسے بھی ہوصدام کو اوراس کی حکومت کو بچایا جائے۔چنانچہ خرمشہر مین ذلت آمیزشکست کی بعد دشمنان اسلام نے اپنی ساری توانائی صدام کے اقتتدار کے تحفظ پر مرکوز کردی ۔ اس کام کے لئے انھوں نے آٹھ سال تک اس کی بے پناہ اسلحہ جاتی اورمالی مدد کی اورایران پردباؤ ڈالتے رہے کہ جیسے بھی ہوجنگ ختم ہوجائے۔
بادی النظرمیں خرمشہر کی آزادی ایک شہر کی آزادی ہے جوایک جنگی کاروائی کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی مگرجب اس پوری صورت حال پرغورکیا جاتا ہے تویہ بات صاف ہوجاتی ہے یہ لڑائی یا فتح صرف علاقے کے لۓنہيں یا علاقے کوفتح کرنے کے لئے نہیں تھی بلکہ سوال اسلامی اورانسانی اقدارتھا۔
ایران پرحملہ اورخرمشہرپرقبضہ کرلینے کے بعد دشمنوں کا منصوبہ یہی تھا کہ وہ اسلام کے نام پرآنےوالے انقلاب اورتشکیل پانےوالے اسلامی نظام کونابودکردیں تاکہ اسلامی تعلیمات اوراقدارکوديگرعلاقوں میں پھیلنے سے پہلے نابودکردیا جائے۔
اسی لئے توفتح خرمشہرکے بعد رہبرکبیرانقلاب اسلامی امام خمینی رہ نے فرمایا تھا کہ خرمشہر کواللہ نے آزاد کرایا ہے اورخرمشہر کی فتح اسلامی اورانسانی اقدارکی فتح ہے۔
اسی لئے فتح خرمشہرکوعصرحاضرکی فتح الفتوح کا عنوان دینا کوئی انتہائي مناسب اوربجااقدام ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button