مقالہ جات

مجھ پراتنی مصیبتیں پڑیں،اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں بدل جاتے

salam ya fatimaنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری بیٹی کا نام فاطمہ (س) اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العلمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، زکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ اورآپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہر ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔لھذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتر کے طعنہ سے بچایا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ پرورش پاتی رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی آغوش سے جدائی کے بعد، ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براهِ راست اس بے نظیر گوہر کی اب وتاب میں اضافہ کررہی تھیں .
جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کے سن میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتین سامنے تھیں کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی یہ خـر سنتیں کہ مشرکوں نے بابا کے سپر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی یہ خـرسنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مدد گاربنی رہیں.

فاطمہ زہرا (س) اور پیغمبر اسلام
حضرت فاطمہ زہرا (س)کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول اسلام (ص) حضرت فاطمہ زہرا (س)سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا (س)سے رخصت ہوتےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے ملنے کے لئے جاتے تھے .
اور عزت و احترام کانمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کو کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول خدا (ص) کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا (س) کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا . اور بعض صحابہ نے اسی فاطمہ کو خون کے آنسو رلایا اور اس کے بچوں کی شہادت کی راہیں ہموار کیں۔
فاطمہ زہرا (س) پر پڑنے والی مصیبتیں
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول اسلام (ص)کھڑے ہوجاتے تھے بعدِ رسول اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئی۔پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے۔
حضرت فاطمہ (س) کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول اسلام (ص)نے بی بی دوعالم اور خاتون جنت کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ اپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا.

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی وصیتیں
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی طاہر کیا جب اپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی طو ر فکر مند نظر ائیں . اپ کی چچی ( جعفر طیار (رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیاتو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کاقدوقامت نظر آتا ہے . اسما (رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بناکر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں ۔
اور پیغمبر اسلام (س) کی رحلت کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی چناچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا (س)کی تھی۔ اسکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزِ عمل نے میرےدل میں زخم پیدا کر دئیے ہیں۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیاسے رخصت ہوئیں۔

پیغمبر اسلام (ص)کی ایک حدیث جو مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ہے جس میں آنحضور (ص) نے فرمایا: فاطمہ کا غضب، اللہ کا غضب ہے اور فاطمہ کی رضا، اللہ کی رضا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے فاطمہ کو غضبناک کیا انھوں نے درحقیقت اللہ کو غضبناک کیا اور اللہ کو غضبناک کرنے والا جہنمی ہے چاہے کو کسی بھی منصب اورعہدے پر فائز کیوں نہ ہو، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا (س)کو ستانے اور اذیت پہنچانے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
…..

متعلقہ مضامین

Back to top button