مقالہ جات

کفن پوش دھرنے میں ایم ڈبلیو ایم نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا، علامہ ناظر عباس تقوی

dharnaعلامہ ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ آپ اس وقت شیعہ علماء کونسل سندھ کے جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ علامہ ناظر عباس نے ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور بالخصوص کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے آئے روز ہونے والے واقعات کیخلاف 14 دسمبر کو کفن پوش دھرنا دینے کا اعلان کیا جو 16 دسمبر کی صبح تک جاری رہا۔ اس دھرنے کی خاص بات یہ تھیکہ اس میں مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ الائنس، شیعہ ایکشن کمیٹی، تنظیم عزاء سمیت دیگر ملی تنظیمیں بھی بھرپور طریقے سے شامل تھیں، جو کہ دشمن کی شکست کا کھلا پیغام تھا۔ یقیناً اس ساری جدوجہد کے پیچھے علامہ ناظر عباس تقوی ہی تھے کہ جنہوں نے ان تمام تنظیموں کو ایک جگہ جمع کرنے اور دھرنے کے اختتام تک ساتھ لے کر چلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے دھرنے کے فوائد اور بعد کی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

نمائندہ: سب سے پہلے تو کفن پوش دھرنے سے حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں ہمارے قارئین کو آگاہ کریں۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، میں یہ سمجھتا ہوں کہ دھرنے کے حوالے سے ہم نے جو اہداف رکھے تھے، وہ یہ کہ ملت تشیع جس خوف و ہراس کی فضاء میں عزاداری سیدالشہداء علیہ السلام کر رہی تھی کہ جو ہمارا بنیادی نکتہ بھی ہے، جس پر علماء کرام وغیرہ مشترکہ طور پر بیٹھے بھی تھے، انہوں نے جائزہ بھی لیا اور وہ جائزہ یہ تھا کہ کسی طرح قوم کو خوف و ہراس کی کیفیت سے باہر نکالا جائے اور یہ جو حکمرانوں نے خوف و دہشت کی فضاء بنا دی ہے عزاداری کے حوالے سے، اس جمود کو توڑا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سو فیصد ہم اس بنیادی ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ جو خوف و ہراس کی فضاء تھی، اس کو توڑا اور اس کی وجہ سے ساری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ تشیع کسی خوف یا کسی دوسری کمزوری کی وجہ سے اپنے فرائض و عزاداری سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، بلکہ اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرکے ملت تشیع نے اپنے اس الٰہی نعرے کو عملی طور پر ثابت کر دیا کہ یہ درس کربلا کا ہے کہ خوف بس خدا کا ہے۔

گورنر سندھ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کن امور پر بات چیت ہوئی اور کیا طے پایا۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: بہت اہم سوال ہے کہ جس پر پوری قوم کو اعتماد میں لینا چاہئیے اور ان تک حقائق پہنچانے چاہئیے، تو اس لئے میں اس ہم ترین سوال کا جواب تفصیلاً دینا چاہوں گا۔ دیکھیں دھرنے کے موقع پر علماء کرام نے مشترکہ طور پر طے کیا کہ کچھ مطالبات بھی سامنے رکھے جائیں۔ اس حوالے سے تمام شریک علماء کرام و تنظیمیں، جس میں مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، امامیہ آرگنائزیشن، شیعہ ایکشن کمیٹی، تنظیم عزاء، جعفریہ یوتھ، پیام ولایت فاؤنڈیشن و دیگر شامل ہیں، چار دن غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہمیں حکمرانوں سے کوئی خاص امیدیں نہیں ہیں، لیکن بنیادی چیز جو تھی کہ یہ ہمیں بتایا جائے کہ دہشت گردوں کے پیچھے کون کون سی قوتیں اور کون کون سے عوامل شامل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم نے یہ مسئلہ اٹھایا تو باقاعدہ لیپ ٹاپ پر ایک اہم بریفنگ دی گئی اور اگر میں وہ بریفنگ لوگوں کے سامنے بیان کر دوں تو ایسے انکشافات ہوئے کہ انسان حیران رہ جائے کہ یہ ملک کس ڈگر پر چل رہا ہے اور دہشت گردوں کی صورتحال کیا ہے۔

انتہائی گھمبیر صورتحال ہے، اس کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ پاکستان کے ادارے، پاکستان کی فورسز پریشان ہیں اپنا تحفظ کرنے کیلئے، یہ ایک جملہ بہت ہے جو چیزیں، جو صورتحال ہمیں بتائی گئی ہیں اور جو ہمیں بریف کیا گیا ہے باقاعدہ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ادارے کمزور ہیں، ان دہشت گرد قوتوں کے آگے اور بالکل بے بس ہیں، وہ اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہیں، یہ ملک کی صورتحال ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے شہداء کے لواحقین جن کے گھر میں کوئی کفیل نہیں ہیں، ان کا اگر بیٹا ہے تو اس کی سرکاری نوکری کی بات کی ہے، ہماری بات ہوگئی ہے، انشاءاللہ آج کل میں نوٹیفیکیشن ہمارے ہاتھ میں آجائے گا۔ جو زخمی حضرات جو پہلے کبھی مثلاً سانحہ عاشوراء یا سانحہ چہلم یا ٹارگٹ کلنگ یا کسی اور جگہ دہشت گردوں کا نشانہ بنے اور معزور ہوگئے تو ان کیلئے بھی ہم نے سرکاری نوکری کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ حکومتی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو آپ نوکریاں دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو بھی نوکریاں دی جائیں، یہ حکومتی فرائض میں سے ایک ہے، تو یہ بھی ہمارا مطالبہ قبول ہوگیا۔

اس کے علاوہ ہمارا ایک مطالبہ یہ تھا کہ جو لوگ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہو جاتے ہیں اور معاوضہ کے نام پر ان کو بھیک دی جاتی ہے مثلاً دو لاکھ روپے، تو ہم نے اس کی نفی کی ہے اور کم از کم بیس لاکھ روپے ہر شہید کو دیا جائے، تاکہ ان کے اہل خانہ کی مالی معاونت ہوسکے، کچھ ان کا مداوا ہوسکے، ویسے تو ان کی جان کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ان کی فیملی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے، کسی کی محتاج نہ ہو اور ویسے بھی یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ تو ہمارا یہ مطالبہ بھی انہوں نے پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس میں صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے مدد لے گی۔

اس کے علاوہ کچھ قانونی پیچیدگیاں تھیں، توہین رسالت و توہین صحابہ قانون کے نام پر جو غیر قانونی و بلا جواز مقدمات قائم کئے جا رہے تھے، اے ٹی سی کے تحت جن کی ایف آئی آر درج ہو رہی تھی کہ جس کی ایک سال تک ضمانت نہیں ہوتی۔ یہ قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد غلط کیا جا رہا ہے، اس کا غیر قانونی استعمال کیا جا رہا ہے اور اب تک کراچی سمیت سندھ بھر میں سو کے قریب بلاجواز ایف آئی آر کاٹی جاچکی ہیں اور بے گناہ لوگ جیلوں میں بند ہیں، جن کی ضمانتیں نہیں ہو رہی ہیں اور وہ معصوم لوگ بڑی مشکلات میں ہیں، اس حوالے سے گذشتہ روز پہلی میٹنگ ہوچکی ہے، جس میں آئی جی، ڈی آئی جی، کمشنر وغیرہ سب موجود تھے۔ اس میں عمل درآمد پر غور کیا گیا ہے، اگلی میٹنگ انشاءاللہ چار دن بعد ہے، اس حوالے سے ہمارے وکلاء نے اطمینان ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہے اور انشاءاللہ وہ اس پر جلد اقدامات کرے گی۔

اس کے علاوہ گلگت میں یوم حسین (ع) کے انعقاد پر طلباء پر بلاجواز تعلیمی پابندی لگائی گئی اور انہیں یونیورسٹی سے نکال کر پاکستانی کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر پابندی لگائی گئی، جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں، اس حوالے سے بھی بات ہوئی اور آج کمشنر کا فون بھی میرے پاس آیا تھا کہ آپ کو گورنر سندھ کال کر رہے تھے، وہ صدر آصف علی زرداری صاحب کے پاس موجود تھے اور آپ کی بات ان سے کروانا چاہ رہے تھے، مگر بات نہیں ہوسکی، اس پر صدر زرداری نے مہدی شاہ کو فون کیا اور اس حوالے مکمل رپورٹ طلب کی ہے اور کہا ہے کہ یونیورسٹی کے نوٹیفیکیشن پر کوئی عمل درآمد نہیں ہونا چاہئیے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں سے رابطہ کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اب تک تو ہمارے ساتھ ایسی کوئی صورتحال نہیں ہوئی ہے۔ اخبارات میں بھی آپ نے پڑھا ہے، قومی و بین الاقوامی میڈیا نے بھی دیا ہے کہ ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، صدر پاکستان کی جانب سے کہ جو طریقہ کار طے کرے گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ تین رکنی کمیٹی آپ ہمیں دیجیئے، جو ہمارے ساتھ رابطہ میں رہے اور ہمارے ساتھ رابطہ کرے اور دہشت گردی و دہشت گردوں پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں اور اقدامات کر رہے ہیں، کیمرہ سسٹم پورے شہر میں، آبادیوں میں لے کر آرہے ہیں، کہ جس سے دیکھا جائے گا کہ کہاں کون کون سے عناصر ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ گورنر سندھ نے بتایا کہ اس شہر کے اندر سرنگیں بنی ہوئی ہیں، لوگ تصور نہیں کرسکتے، دہشت گرد وہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی آپریشن کے حوالے سے بات ہوئی ہماری اور سزا یافتہ سڑسٹھ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے حوالے سے بات ہوئی جو کہ وفاقی سطح کا مسئلہ ہے، اگرچہ انہوں نے ایک مایوس کن بات کی لیکن نتیجہ اللہ پر رکھنا چاہئیے، انہوں نے ایک جملہ یہ کہا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے، انہوں نے حقائق تسلیم کئے، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حقیقت پر مبنی بات کی ہے کہ ہم نے جب کہا کہ صدر مملکت، تو کہنے لگے کہ یہ ان کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

انہوں نے ایک اشارہ دیا اور وہ یہ تھا کہ جن کے سر پر چار افواج کی کیپ موجود تھی وہ یہ کرنے میں ناکام رہے۔ تو ان باتوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ حکومت میں کتنا وزن ہے، کتنی طاقت رکھتی ہے۔ تو ہمیں کوئی خاص امید یا توقعات نہیں رکھنی چاہئیے، جن چیزوں کی ہم نے کوشش کی تھی، جو مطالبات ہم نے انہیں دے دیئے ہیں، ان میں سے کچھ چیزیں ہمارے پاس تحریری شکل میں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ میں پھر قوم سے کہتا ہوں کہ ہمارا بنیادی مقصد قوم کے اندر ایک خوف تھا، تشیع کی اندر ایک بے چینی پائی جا رہی تھی، لوگ پریشان تھے کہ کیا ہو رہا ہے، نہ لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی کرتا چلوں کہ سب سے زیادہ مایوس کن جنازہ جو اٹھا ہے وہ میں سمجھتا ہوں کہ شہید علامہ آغا آفتاب حیدر جعفری کا ہوا ہے، جس میں لوگ بھی شریک ہوئے اور تین چار افراد بھی رینجرز کے ہاتھوں شہید ہوئے، اس حوالے سے بھی بات ہوئی کہ ہمیں بتایا جائے کہ رینجرز حکام نے اب تک اپنے لوگوں کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی ہے اور کون سا قانون وضح کیا ہے، تو اس پر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی ڈی جی رینجرز سے میٹنگ کرائیں گے، ممکن ہے کہ اس حوالے سے ایک آدھ دن میں یہ میٹنگ بھی ہو جائے۔ تو اس صورتحال میں ہم نے قوم کو بلایا کہ جب لوگ مایوس تھے اور اس کا اظہار قوم نے پوری قوت کے ساتھ کیا، جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔

سب سے بڑا فائدہ جو ہمیں، پوری قوم کو ہوا وہ جو اتحاد کی فضاء قائم ہوئی ہے، وہ لوگ جو بے چارے پریشان تھے کہ قوم میں اتحاد نہیں ہے، قوم میں انتشار ہے۔ تو کوئی ایک ایسا نکتہ نہیں ہے کہ جس پر ہمارے درمیان اتحاد نہ ہو۔ پروگرام کے آغاز سے مطالبات تک سب کا ایک ہی مؤقف تھا، سب ایک مؤقف پر ڈٹے رہے۔ لہٰذا یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ دیکھئے اس وقت ہمارے پاکستان میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے، ہم نے مشترکہ جدوجہد کرنی ہے، اگر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ ایک دن میں اس ملک میں انقلاب آجائے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ مسلسل جدوجہد کرنی پڑے گی تشیع کے تحفظ کیلئے، ایک راستہ معین کرنا پڑے گا، نتائج کے حصول کیلئے تسلسل کے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔

دہشت گردی اس ملک میں ایک دن میں نہیں ہوئی ہے، بیس تیس سالوں سے جاری ہے، ہم تنائج کے حوالے سے مایوس نہیں ہیں۔ ہم نے گورنر سندھ کو یہ بھی یادداشت دی ہے کہ ہم پورے سندھ کا ڈیٹا دینے کیلئے تیار ہیں کہ وفاق کی کچھ سرکاری مساجد ایسی ہیں کہ جہاں وہ تکفیری گروہ بیٹھا ہے جو شیعوں کی توہین کرتا ہے، ان سرکاری مساجد سے ان کو فارغ کیا جائے، ہٹایا جائے، تاکہ سرکاری مساجد سے تشیع کے خلاف، مسلمہ فرقوں کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور انہوں نے کہا ہے کہ آپ ہمیں ڈیٹا جمع کرکے دیں، ہم نے خط لکھ دیا ہے، آپ ہمیں نشاندہی کرائیں ہم جتنا ہوسکے روکنے کی کوشش کریں گے۔

نمائندہ: اگر گورنر سندھ نے ان تمام باتوں پر عمل نہیں کیا تو آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: دیکھیں میں نے بتایا ہے آپ کو کہ ہمارا مطالبات پر اتنا فوکس نہیں تھا، اب تک ان کی نیت صاف ہے اور چیزیں اچھے انداز سے چل رہی ہیں، آج بھی جو لڑکا دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہوا، ہم نے اسے آغا خان اسپتال میں داخل کیا، حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اس کا خرچہ اٹھائیں گے، اب تک ان کی نیتیں صاف ہیں، وہ عمل درآمد کر رہے ہیں۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ چل رہے ہیں، اگر کوئی مسائل پیدا کیے گئے تو اس کیلئے بھی ہم نے حکمت عملی بنائی ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوسکتی ہے اور اس حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

نمائندہ: دھرنے میں تمام تنظیمیں اپنی شناخت کے بغیر شریک تھیں، اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: خدا کا شکر ہے اور یہ بہت خوش آئند بات ہے اور انشاءاللہ اس عمل کو مزید بڑھایا جائے گا، آج کل میں ہماری ایک اور مشترکہ میٹنگ ہو رہی ہے، جس میں ہم اپنے نقائص کا جائزہ لیں گے، مشکلات کا جائزہ لیں گے اور کیا فوائد ہم نے حاصل کئے اس پر بھی بات ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دھرنا پاکستان کی تاریخ کا واحد دھرنا ہے کہ جس پر پوری دنیا کی نگاہیں تھیں کیونکہ آپ میڈیا سے وابستہ ہیں آپ کو پتہ ہے کہ جس پر مراجعین کی نگاہیں تھیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ مراجعین کی نگاہیں ہمارے ساتھ ہیں تو یہ ہماری کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

نمائندہ: شیعہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے منعقدہ دھرنے میں مجلس وحدت مسلمین نے اپنے نام کے بغیر شمولیت اختیار کی اور آخر تک آپ کے ساتھ رہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: میں آپ کے توسط سے بھی تمام تنظیموں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مجلس وحدت مسلمین نے ہمارے ساتھ مخلصانہ انداز میں بھرپور تعاون کیا، مشکلات میں ہم نے مشاورت کی، مشورے کئے اور انہوں نے بھی مشکلات سے نکالا۔ میں ان تمام رہنماؤں کا جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا، تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں۔ انشاءاللہ ہماری کوشش ہوگی کہ اپنے تمام مفادات کو بالائے طاق رکھ کر جس سلسلے کا آغاز کیا ہے، اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔ ہماری پالیسی بھی یہی ہے کہ جب کہیں جہاں کہیں مثبت کام ہو کہ قرآن کا بھی اصول ہے کہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ تو جہاں اچھا کام ہوگا ہم تعاون کریں گے اور اگر کہیں مخالفت میں اقدام کیا جائے گا تو ہم اپنا دامن کھینچ لیں گے، مگر اس کی مخالفت نہیں کرینگے، یہی ہماری پالیسی ہے۔ ہم نے ایک ساتھ کام کیا ہے، اعتماد بحال ہوئے ہیں، اتحاد و وحدت کی فضاء قائم ہوئی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ سفر جو ہے وہ جاری و ساری رہے گا۔

نمائندہ: کیا کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے دھرنے کے دوران آپ سے رابطہ کرکے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: بہت ساری سیاسی غیر سیاسی جماعتوں نے ہمیں اپنی حمایت کا یقین دلایا، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، سنی تحریک، اے این پی حتیٰ کہ عیسائی رہنماؤں نے ہم سے رابطہ کیا اسلام آباد سے، اس کے علاوہ کچھ این جی اوز نے بھی ہم سے رابطہ کیا۔ بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ اس دھرنے میں شریک ہونے کیلئے تیار تھے لیکن کچھ مسائل ایسے تھے کہ ہم ان کی شرکت کو یقینی نہیں بنا پائے۔

نمائندہ: قوم کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی: سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قوم ان عناصر سے محتاط رہے کہ جو پروپیگنڈہ پھیلا کر چاہتے ہیں کہ قوم میں اس دھرنے کے حوالے سے مایوسی پھیلائی جائے۔ ہم ان پروپیگنڈوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آئمہ اہل ابیت (ع) کے خلاف شدید ترین پروپیگنڈہ کیا گیا، علی علیہ السلام جیسے امام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جب مسجد میں ان کی شہادت کی خبر لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا کہ علی اور نماز، کیا علی بھی نماز پڑھتے تھے۔ تو پروپیگنڈہ کا بازار آج سے گرم نہیں ہے بلکہ ازل سے قیامت تک جاری رہے گا، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پروپیگنڈہ سے کیسے خود بھی بچیں اور قوم کو بھی محفوظ رکھیں۔ یہ ایک مخصوص گروہ ہے کہ جو ہمیشہ قوم کے درمیان اس ناپاک حرکت میں ملوث رہتا ہے۔ ان لوگوں کو پروپیگنڈہ کے بجائے حقائق کی طرف آنا چاہئیے، قوم کے درمیان جو اتحاد و وحدت کی فضاء قائم ہوئی ہے اس کو آگے بڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، نہ کہ اپنی اور قوم کی توانائی منفی پرپیگنڈہ میں ضائع کریں۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں کو یہ بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے شہداء کے خانوادوں کے کوائف جمع کریں جو پریشان حال ہیں، یہ ایک دشوار کام ہے، اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں، تاکہ ان کو حقوق دلائے جاسکیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button