واقعہ غدیر خم پر ایک نظر
ہجرت کادسواں سال تھا۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستوردیاکہ مدینہ اور اسکے اطراف قبائل میں اعلان کروایاجائے کہ اس سال نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی حج ادا کرنے
مکہ جائیں گے۔ اس اعلان نے مسلمانوں کے دلوں کو شوق اورجذبے سے لبریزکردیااورہزاروں افرادمدینہ کے اطراف خیمے لگاکرحج کی خاطرپیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفرکیلئے نکلنے کاانتظار
کرنے لگے تاکہ انکے ساتھ اس عظیم اجتماعی اورسیاسی عبادت میں شرکت کرسکیں۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 26 ذی القعدہ کو 60 قربانیوں کے ہمراہ مدینہ کوترک کیا۔ذو الحلیفہ پہنچنے پرمسجدشجرہ میں احرام باندھا اور 4 ذی الحجہ کومکہ میں داخل ہوئے۔ اس دوران امیرالمومنین علی علیہ السلام یمن میں تھے۔ وہ بھی اس خبرسے آگاہ ہو گئے کہ اس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شخصاحج میں شرکت فرمارہے ہیں۔ لہذاوہ بھی حج کی نیت سے مکہ کی طرف عازم ہوگئے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام بھی اپنے ہمراہ 34 قربانیاں لئے ہوئے تھے۔ مکہ پہنچنے پرپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکااستقبال کیااورپوچھاکہ "یاعلی، آپ نے حج کی نیت کس طرح سے کی ہے”۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے جواب دیاکہ میں نے آپ کی نیت کے مطابق نیت کی ہے اور کہا ہے "اللھم اھلالا کاھلال نبیک”۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ پس آپ بھی جب تک قربانی انجام نہیں دیتے اپنے احرام پرباقی رہیں۔سب مسلمانوں نے عمرہ انجام دیا۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستوردیاکہ مکہ سے باہران کیلئے ایک خیمہ لگایاجائے۔ 8 ذی الحج کادن تھا۔تمام مسلمان عرفات کی جانب گامزن تھے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس دن جو "یوم ترویہ” کہلاتا ہے،منی کے ذریعے عرفات کی طرف چل پڑے۔آپ 9 ذی الحج کی صبح تک منی میں تھے۔ وہاں سے عرفات کی طرف چلے اورنمرہ نامی جگہ پرجہاں آپ کیلئے ایک خیمہ نصب کیاگیاتھا قیام کیا۔
حجۃ الوداع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاتاریخی خطاب:
9 ذی الحج جو "یوم عرفہ” کے نام سے مشہورہے عرفات میں تقریباًایک لاکھ مسلمان موجودتھے جنہوں نے ظہراور عصرکی نمازآنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں اداکی۔ اسکے بعدنبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تاریخی خطبہ دیاجس میں آپ نے سب کویہ افسوسناک خبردی کہ یہ انکا آخری سال ہے اوروہ دعوت حق کو لبیک کہنے والے ہیں۔اسی طرح اس خطبے میں آپ نے اسلام کے بنیادی اصول اورتعلیمات کی طرف اشارہ کیا۔ تمام مسلمانوں کواسلامی برادری اوربھائی چارے،مساوات،عدالت،ایکدوسرے کے ساتھ مہربانی،شیطان کی پیروی سے پرہیز،خواتین کااحترام اور انکے حقوق کی رعایت اورجاہلیت کے زمانے کے عقائدکو ترک کرنے اوراسلامی تعلیمات پرعمل پیراہونے کی ہدایت کی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یوم عرفہ کے غروب تک عرفات میں قیام پذیرتھے۔جب سورج نظروں سے اوجھل ہوگیااورکچھ حدتک تاریکی چھاگئی تو آپ نے وہاں سے کوچ کیااوررات کا کچھ حصہ مزدلفہ میں گذارا۔طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک کاوقت مشعرمیں رہے اور 10 ذی الحجہ کو منی کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پر آپ نے رمی جمرات،قربانی اورتقصیرانجام دی اورحج کے باقی اعمال انجام دینے کیلئے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ احادیث اورتاریخ کی بعض روایات میں اس تاریخی سفرکو "حج وداع” یا "حج بلاغ” یا "حج اسلام” کانام دیاگیاہے۔ یہاں پریہ نکتہ قابل ذکرہے کہ اکثرمورخین کی رائے میں یہ خطبہ 9 ذی الحجہ کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دیاگیاہے لیکن بعض مورخین کی نظر میں یہ خطبہ 10 ذی الحجہ کے دن دیا گیا ہے۔
دین کی تکمیل:
شیعہ علماء کی نظر میں خلافت ایک خدائی عہدہ ہے جو خداوند عالم کی طرف سے قوم کے بافضیلت،لائق اور داناترین فردکوعطاکیاجاتا ہے۔نبی اورامام کے درمیان واضح ترین فرق یہ ہے کہ نبی شریعت کابانی،وحی الہی کا مخاطب اورکتاب الہی رکھنے والاہے جبکہ امام اگرچہ ان میں سے کسی چیزکاحامل نہیں لیکن حکومت اور زمامداری کے علاوہ دستورات خداوندی کے اس حصے کوبیان کرنے کی ذمہ داری رکھتاہے جس کوپیغمبرمناسب فرصت کے نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہ کرسکا۔ لہذامکتب تشیع کے نزدیک خلیفہ نہ صرف حاکم وقت اوراسلام کا زمامدار ہے بلکہ قوانین کااجراء کرنے والا،حقوق کامحافظ اورملکی سرحدوں کانگہبان بھی ہے۔ اسکے علاوہ مذہب کے مشکل اورپیچیدہ نکات کوواضح کرنے والااوران دستورات اورقوانین کی تکمیل کرنے والابھی ہے جوکسی بھی وجہ سے مذہب کابانی بیان نہیں کرپایا۔ لیکن اہل سنت کی نظرمیں خلافت ایک معمولی اورعام عہدہ ہے جسکا مقصدمسلمانوں کے دنیوی اورظاہری مسائل کوحل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس نگاہ کے مطابق خلیفہ وقت عمومی آراءکومدنظر رکھتے ہوئے سیاسی،عدالتی اوراقتصادی امورکوچلانے کیلئے منتخب کیاجاتاہے اورایسے اسلامی دستورات جوپیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئے کو بیان کرنے کی ذمہ داری مسلمان علماء اوردانشوروں پر ہے۔ یہ علماء اوردانشور ان مسائل کواجتہادکے ذریعے حل کرتے ہیں۔خلافت کی حقیقت کے بارے میں ان دو مختلف نگاہوں کی بنیادپرمسلمانوں میں دوبڑے فرقے وجودمیں آئے جنکے درمیان اختلافات آج تک باقی ہیں۔پہلی نگاہ کے مطابق جواہل تشیع سے مربوط ہے امام کچھ حیثیتوں میں پیغمبرکے ساتھ شریک ہے۔ لہذاجوشرائط پیغمبری کیلئے ضروری ہیں وہ امامت کیلئے بھی ضروری ہیں۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔ پیغمبرکامعصوم ہوناضروری ہے،یعنی اپنی پوری زندگی میں وہ کسی گناہ کامرتکب نہ ہواوراسلامی دستورات کو بیان کرنے اورلوگوں کے مذہبی سوالات کاجواب دینے میں بھی کسی غلطی کامرتکب نہ ہو،
۲۔ پیغمبرکوشریعت کے علم کے حوالے سے قوم کادانا ترین فردہوناچاہئے اوردین کاکوئی نکتہ اسکی نظرسے اوجھل نہیں ہوناچاہئے۔ امام بھی چونکہ دین یاشریعت کے اس حصے کی جوپیغمبرکے زمانے میں بیان نہیں کیاگیا تکمیل اوراسکو بیان کرنے والاہے لہذادینی مسائل اوردستورات کی نسبت سب سے زیادہ عالم ہوناچاہئے،
۳۔ نبوت ایک انتصابی عہدہ ہے نہ انتخابی۔پیغمبرکوخدامشخص کرتاہے اوراسے نبوت کاعہدہ عطاکرتاہے کیونکہ صرف خداہے جو یہ پہچان حاصل کرسکتاہے کہ کون شخص معصوم ہے اورکون شخص معصوم نہیں ہے۔ صرف خدا اسکو پہچانتاہے کیونکہ وہ خداکی غیبی عنایات کی روشنی میں عصمت کے درجے تک پہنچ پایا ہے۔ امامت میں بھی چونکہ عصمت شرط ہے لہذا امام کوبھی صرف خداہی مشخص کرسکتاہے اوراسکو اس عہدے پرنصب کرسکتا ہے۔ پس امامت بھی انتصابی ہے نہ انتخابی۔
اہل سنت کی نظرمیں ان میں سے کوئی بھی شرط امام میں ہوناضروری نہیں ہے۔ نہ عصمت،نہ عدالت،نہ علم،نہ شریعت پراسکااحاطہ اورنہ عالم غیب سے اسکارابطہ۔ بلکہ اسکااس قابل ہوناکافی ہے کہ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں اورمسلمانوں سے مشورے کی مددسے اسلام کی عظمت کی حفاظت کرسکے اورقوانین کے اجراء سے خطے کی سلامتی کو قائم رکھ سکے اورجہادکی طرف دعوت کے ذریعے اسلامی سرزمین کومزیدوسعت دے سکے۔
جانشینی پیغمبر ص انتصابی ہونی چاہئے یا انتخابی:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام ایک عالمی اورآخری دین ہے۔ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ تھے لوگوں کی رہبری اوررہنمائی انکے کاندھوں پرتھی۔ آپ کی وفات کے بعدقوم کی رہبری ایسے فردکوملنی چاہئے جوسب سے زیادہ امامت اورخلافت کے عہدے کیلئے لیاقت اورشائستگی رکھتاہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کاتجزیہ وتحلیل کریں تاکہ اس نتیجے پرپہنچ سکیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعدآیاامامت یاخلافت ایسے شخص کوملنی چاہئے تھی جسکوخدانے اس عہدے پرفائزکیاتھایاایسے شخص کو ملنی چاہئے تھی جسکالوگوں نے اس عہدے کیلئے انتخاب کیاتھا؟۔ اسلام کی داخلہ اورخارجہ پالیسیوں کومدنظر رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حالات کی پیش نظرخداکا خودپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انکاجانشین مشخص کرناہی بہترتھا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف اسلامی معاشرہ روم، ایران اور اندرونی منافقین کی منحوس مثلث کی طرف سے ہمیشہ جنگ،اندرونی اختلافات اورفتنہ گری کے شدیدخطرے سے روبرو تھااوردوسری طرف قومی مصلحت کاتقاضابھی یہ تھاکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک سیاسی لیڈرکو مشخص کرکے ساری قوم کوبیرونی دشمن کے سامنے ایک صف میں متحدکردیں اورمسلمانوں کے اندراختلافات کے ذریعے دشمن کے نفوذ کاراستہ بندکردیں۔
الف)۔ روم کی سلطنت: اس منحوس مثلث کاایک ضلع روم کی سلطنت تھی۔ یہ بڑی طاقت جزیرۃ العرب کے شمال میں واقع تھی اورہمیشہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ کامرکز رہی۔آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری دم تک روم کے حوالے سے پریشانی کاشکارتھے۔مسلمانوں کے ساتھ رومیوں کی پہلی جنگ 8 ہجری میں پیش آئی۔ اس جنگ میں اسلام کے تین اعلی کمانڈرزجعفرطیار،زیدبن حارثہ اورعبداللہ بن رواحہ شہیدہوگئے۔ سپاہ کفرکے مقابلے میں لشکراسلامی کی عقب نشینی انکی جرات کاباعث بنی اورہرلحظہ یہ خطرہ موجودتھاکہ روم اسلامی مرکزیعنی مدینہ منورہ پرحملہ ورہوجائے۔ اسی بات کے مدنظرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 9 ہجری میں ایک عظیم لشکرلے کرروم کی طرف روانہ ہوئے جس میں مسلمانوں نے سخت مشکلات کاسامناکیا لیکن اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کودوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ روزقبل ہی اسامہ کی کمانڈمیں ایک لشکرترتیب دیااورانہیں ہدایت کی کہ وہ شام کی طرف روانہ ہوں۔
ب)۔ ایران کی سلطنت:ایران کی سلطنت اس منحوس مثلث کادوسراضلع تھی۔ ایرانی حکمرانوں کی دشمنی کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حاکم وقت خسرو پرویز نے غصے کی شدت سے پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط مبارک پھاڑدیااورآپ کے بھیجے ہوئے سفیرکوتوہین آمیزاندازمیں باہرنکال دیااوریمن کے والی کو خط لکھاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کونعوذ باللہ گرفتارکرکے اسکے سامنے پیش کرے اورمزاحمت کی صورت میں انہیں قتل کردے۔
ج)۔ اندرونی منافقین:اسلام اوراسلامی معاشرے کو درپیش تیسراخطرہ انکے اندرموجودمنافقین کاٹولہ تھاجوبظاہرتو مسلمان ہونے کااظہارکرتے تھے لیکن انکے دل اسلام اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کینہ و عداوت سے مالامال تھے۔ انہیں کے بارے میں خداکی طرف سے ایک مکمل سورہ نازل ہوئی جو "سورہ توبہ” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسلام ہمیشہ اس ٹولے کی طرف سے خطرے سے روبرورہاہے حتی اس ٹولے نے کئی بار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوقتل کرنے کی بھی کوشش کی جسکی ایک مثال تبوک سے مدینہ واپس آتے ہوئے نبی اکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرقاتلانہ حملہ ہے۔ یہ افراد سمجھتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوقتل کرکے وہ اسلام کوہمیشہ کیلئے ختم کرسکتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوسفیان ایک مکارانہ چال چلتے ہوئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے پاس آیااورانکے ہاتھ پر بیعت کرنے کاارادہ ظاہرکیااورانکوخلیفہ وقت کے مقابلے میں اپنی مکمل حمایت کایقین دلایا۔امام علی علیہ السلام نے اسکی دعوت کوٹھکراتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم تمہارا مقصد فتنہ گری اورفساد کے علاوہ کچھ نہیں۔ تم صرف آج ہی فتنہ گری کی آگ بھڑکانے کے درپے نہیں ہوبلکہ ہمیشہ سے شرارت کرنے کی تاک میں رہے ہو۔جان لوکہ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں”۔
کیا ان تمام دشمنوں کی موجودگی میں صحیح تھاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک نئے وجودمیں آنے والے اسلامی معاشرے کیلئے اپنادینی اورسیاسی جانشین مقررنہ کرتے؟۔عقل کاتقاضاتھا کہ نبی مکرم اسلام اسلامی معاشرے کیلئے ایک رہبراورزمامدارکوتعیین کرکے ہرقسم کے اختلاف کی روک تھام کرتے اوراسلامی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے۔
ان دلائل کے علاوہ ایسی بے شماراحادیث موجودہیں جوپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے جاری ہوئی ہیں اوراہل تشیع اوراہل سنت کے نزدیک صحیح اوریقینی ہیں اوران میں واضح اندازمیں امیرالمومنین علی علیہ السلام کواپناجانشین اورخلیفہ مقررکیاگیاہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت کے دوران کئی باراپنے وصی اورجانشین کومشخص فرمایااورامامت کوانتخاب اورعوامی رائے سے مبراکیا۔ انہوں نے نہ فقط اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنے جانشین کومشخص فرمایابلکہ اپنی رسالت کے آغازپرہی جب مسلمانوں کی تعدادسوسے بھی کم تھی اپنے وصی اورجانشین کااعلان فرمادیا۔ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف خداکی جانب سے دستورآیاکہ اپنی عزیزواقارب کواسلام کی دعوت فرمائیں۔ آپ نے بنی ہاشم کے 45 سربراہوں کواپنے گھرجمع کیااورفرمایا: "آپ لوگوں میں سے جوبھی میری دعوت کوسب سے پہلے قبول کرے گامیرا بھائی،وصی اورجانشین قرارپائے گا”۔جوفردسب سے پہلے اٹھااورآپ کی آوازپرلبیک کہی وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت تھی۔نبی مکرم اسلام نے تمام حاضرافرادسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "یہ جوان میرا بھائی، وصی اورجانشین ہے”۔اس حدیث کومورخین اورمحدثین کے نزدیک "حدیث یوم الدار” اور "حدیث بدء الدعوۃ” کے ناموں سے جاناجاتاہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں مختلف مقامات پر،سفر اورحضرمیں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اورجانشینی کوواضح طورپربیان فرمایاہے۔ لیکن ان تمام احادیث میں سب سے زیادہ واضح، باعظمت اور دو ٹوک حدیث "حدیث غدیر” ہے۔
واقعہ غدیر خم:
حج کے ایام ختم ہو چکے تھے۔ مسلمان نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حج کے اعمال سیکھ چکے تھے۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ واپس جانے کافیصلہ کرلیا اورروانہ ہوگئے۔ جب آپ کا کاروان جحفہ سے تین میل دور "رابغ” کی سرزمین پرپہنچاتووہاں پرموجودخطے "غدیرخم” کے مقام پرجبرئیل امین نازل ہوئے اورخداکایہ پیغام پہنچایا: "ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ ماأُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرينَ” (سورہ مائدہ، آیہ 67)۔
"اے رسول، وہ پیغام جوتم پرخدا کی طرف سے نازل ہواہے اسے لوگوں تک پہنچادو۔اوراگر تم نے اسے لوگوں تک نہ پہنچایاتوگویاخداکی رسالت کوانجام نہیں دیا،اورخداتمہیں لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔خداکافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا”۔
اس آیہ شریفہ سے ظاہرہوتاہے کہ خدانے انتہائی اہم کام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپردکیاتھاجو انجام نہ پانے کی صورت میں آپ کی مکمل رسالت ہی انجام تک نہ پہنچ پاتی اوربے نتیجہ ہوجاتی۔ ایسااہم کام ایک لاکھ حاجیوں کے سامنے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اورخلافت کے اعلان کے علاوہ کیاہوسکتاتھا؟۔ لہذاپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب کورک جانے کاحکم دیا۔جوافراد آپ کے کاروان سے آگے نکل چکے تھے انکوواپس بلایاگیااورپیچھے سے آنے والوں کاانتظارکیاگیا۔ ظہرکاوقت تھااورشدیدگرمی پڑرہی تھی۔ لوگوں نے اپنی عباکے ایک حصے کوسرپراوردوسرے حصے کو اپنے پاوں کے نیچے رکھاہواتھا۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے درخت پرچادر ڈال کرسایہ فراہم کیاگیاتھا۔ سب افراد نے ظہرکی نمازپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں اداکی۔ نمازکے بعدتمام افراددائرے کی شکل میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گردجمع ہوگئے اورآپ کیلئے اونٹوں کی پالانوں سے ایک منبربنایاگیا۔آپ اس منبرپرتشریف لے گئے اوراونچی آوازمیں لوگوں سے خطاب فرمایا۔
غدیر خم کے مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ:
"حمدوثناخداوندعالم کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مددمانگتے ہیں اوراسی پرایمان رکھتے ہیں اوراسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اوربرے کاموں سے اسی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ وہ خداجسکے سواکوئی ہدایت دینے والااور راہنما نہیں ہے۔ جسکو وہ ہدایت دے اسکو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔میں گواہی دیتاہوں کہ اسکے سوا کوئی معبودنہیں اورمحمد ص اسکابندہ اوررسول ہے۔ اے لوگو،میں جلدہی دعوت حق کو لبیک کہنے والاہوں اورآپ کے درمیان سے جانے والاہوں۔ میں مسئول ہوں اورآپ لوگ بھی مسئول ہیں۔ آپ لوگ میرے بارے میں کیاسوچتے ہیں”۔ اس موقع پرسب کی طرف سے آوازبلندہوئی کہ "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیااورپوری کوشش کی۔خداآپ کواسکااجرعطا فرمائے”۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "کیا آپ لوگ گواہی دیتے ہیں کہ دنیاکامعبودایک ہے اورمحمد ص اسکابندہ اوررسول ہے اوربہشت ودوزخ اوراگلے جہان میں ہمیشہ کی زندگی میں کسی قسم کاشک موجودنہیں ہے؟”۔سب نے کہاجی ہاں یہ صحیح ہے اورہم سب گواہی دیتے ہیں۔ اسکے بعدپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "میں آپ لوگوں میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑکرجارہاہوں، آپ لوگ انکے ساتھ کیابرتاوکریں گے؟”۔اسی دوران ایک شخص کھڑاہوا اور اونچی آوازمیں پوچھاکہ وہ دوچیزیں کیا ہیں؟۔ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ایک خداکی کتاب جسکی ایک طرف خداکے ہاتھ میں اور دوسری طرف آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اوردوسری چیزمیرے اہلبیت اورگھروالے ہیں۔ خدانے مجھے خبردی ہے کہ یہ دونوں کبھی بھی ایکدوسرے سے جدانہیں ہونگے۔ اے لوگو،میرے اہلبیت سے آگے نہ بڑھنااوردونوں پرعمل کرنے میں کوتاہی نہ کرناورنہ ہلاک ہوجاو گے”۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کاہاتھ تھاما اوراسقدراوپرکھینچاکہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی ظاہرہوگئی اورفرمایا: "مومنین پرخود ان سے زیادہ حقدارکون ہے؟”۔ سب نے جواب دیاخدا اوراسکاپیغمبر۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "خدا میرامولا اورمیں مومنین کامولا ہوں۔ میں ان پرخودان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اے لوگو،من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عادمن عاداہ واحب من احبہ،وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار”۔”جس جس کامیں مولاہوں اس کاعلی مولاہے (رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملے کو تین باردہرایا)،خدایا،جو بھی علی سے دوستی کرے تواس سے دوستی کر،اورجوبھی علی سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر،جوبھی علی سے محبت کرے تواس سے محبت کر،اورجوبھی علی سے بغض وعداوت رکھے توبھی اس سے بغض وعداوت رکھ،جو اسکی مدد کرے توبھی اسکی مددکر،جوعلی کوذلیل کرے توبھی اسکوذلیل کر،جہاں بھی علی جائے حق کواسکے پیچھے پھیردے”۔
اسکے بعدآپ نے فرمایا: "اے لوگو،ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے ہیں اورخداکی طرف سے یہ پیغام میرے لئے لائے ہیں:
"ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً” (سورہ مائدہ، آیہ 3)۔
"آج کے دن میں نے تم لوگوں کا دین کامل کردیا اورتم لوگوں پراپنی نعمت کو تمام کردیا اورتمہارے لئے اسلام کو دین کے طورپرانتخاب کرلیا”۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس موقع پراونچی آوازمیں اللہ اکبر کانعرہ لگایااورفرمایا: "خداکا شکرکہ اس نے اپنے دین کوکامل اوراپنی نعمت کوتمام کردیااورمیرے بعدعلی علیہ السلام کی خلافت اورجانشینی سے راضی ہوگیا”۔ اسکے بعدنبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبرسے نیچے تشریف لائے اورامیرالمومنین علی علیہ السلام کوفرمایاکہ اپنے خیمے میں بیٹھ جائیں تاکہ مختلف قبیلوں کے سربراہ اوراہم شخصیات آپ کومبارکباد دیں اور آپ کے ہاتھ پربیعت کریں۔تاریخ میں نقل ہواہے کہ جن افرادنے سب سے پہلے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاخلیفہ اورجانشین بننے پرمبارک پیش کی اورانکے ہاتھ پربیعت کی وہ حضرت ابوبکر،حضرت عمراورحضرت عثمان تھے۔
واقعہ غدیر کے بارے میں کچھ اہم نکات:
۱۔ اس تاریخی واقعہ کو تقریبا 110 اصحاب نے نقل کیاہے۔ لہذا اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ یہ وہ افرادہیں جنکاذکر اہلسنت کی کتابوں میں ہواہے۔ اس واقعہ کے بارے میں بڑی تعدادمیں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تفصیل سے لکھی گئی کتاب "الغدیر” ہے جوعلامہ امینی نے لکھی ہے۔
۲۔ کچھ اہلسنت علماء نے اس حدیث کااس طرح سے ترجمہ کیاہے کہ اس میں لفظ "ولی” کے معنامحبت کے ہیں نہ حکومت اورخلافت کے۔ انسان اگرتھوڑی سی توجہ کرے تواس توجیہ کاہلکا پن واضح ہوجاتاہے۔ کیایہ عاقلانہ ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنی شدیدگرمی میں ایک لاکھ افرادکے اجتماع میں لمباچوڑاخطبہ بیان کرنے کے بعدلوگوں سے یہ کہیں کہ میرے بعدعلی علیہ السلام سے محبت کرنا؟!!!۔ اورکیایہ عاقلانہ ہے کہ خداوندعالم کی طرف سے یہ پیغام نازل ہو کہ اے پیغمبراگر آپ لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ میرے بعدعلی علیہ السلام سے محبت کرناتوتمہاری رسالت کامل نہیں ہے؟!!!۔ اورکیایہ عاقلانہ ہے کہ مسلمانوں کی اہم شخصیات جیسے حضرت ابوبکر،حضرت عمراورحضرت عثمان صرف اس لئے علی علیہ السلام کومبارکبادپیش کریں اورانکے ہاتھ پربیعت کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے محبت کرنے کاکہا ہو؟!!!۔
۳۔ اگرانسان بے طرف ہوکرسوچے تو یہ سمجھ سکتاہے کہ غدیرخم کے روزپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس اہم مسئلے کوبیان کیااورجس کے بغیرآپ کی رسالت ادھوری تھی،اورجس کوبیان کرنے کے بعداسلام کامل ہواوہ امام علی علیہ السلام کی جانشینی اورخلافت کامسئلہ تھا۔رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کوحیران وسرگردان نہیں چھوڑاتھاکہ آپ کی وفات کے بعدلوگ خلیفہ اورجانشین کی فکرکرنا شروع ہوجائیں۔ بلکہ آپ نے اپنی تمام زندگی میں،اور رسالت کے پہلے دن سے آخری دن تک بیسیوں مقامات پریہ بیان کردیاتھاکہ علی علیہ السلام انکے جانشین اورخلیفہ بلافصل ہیں۔البتہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کام خداکے حکم پرکیاتھااورامام علی علیہ السلام کوامامت،خلافت اوررسول خدا کی جانشینی کے عہدے پرفائزکرنے والاخود خداوند عالم ہے۔