اہم ترین خبریںایران

اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام ایک الٰہی امانت ہے، حقیقی ترقی اخلاقیات سے مشروط ہے، آیت اللہ جوادی آملی

انبیاءؑ کی تعلیمات اخلاقی و روحانی بیماریوں کا علاج ہیں، انسان کی اصل حقیقت اس کی جاودانی روح ہے، آیت اللہ جوادی آملی

شیعیت نیوز: آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام ایک الٰہی امانت ہے جو بالآخر اپنے حقیقی مالک تک پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی اصلاح اور حقیقی ترقی صرف اخلاقی تربیت کے ذریعے ممکن ہے کیونکہ اخلاقیات انسان کی اصل حقیقت سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کا اثر دائمی ہوتا ہے۔

یہ بات انہوں نے منگل 16 ربیع الاول، ولادت باسعادت پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے بقیۃ اللہ (عج) ہسپتال کے ڈاکٹروں اور اساتذہ سے ملاقات کے دوران کہی۔

یہ بھی پڑھیں : صادقینؑ کی حیاتِ مبارکہ آج کے مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے، مولانا حسن رضا نقوی

آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ انبیاء علیہم السلام صرف معلم نہیں تھے جو دوسروں کا علم منتقل کریں بلکہ وہ ایسی حکمتیں اور معارف لے کر آئے جو کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ قرآن کریم کی یہ آیت ﴿وَیُعَلِّمُکُم مَا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ﴾ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ بعض علوم اور حقائق صرف وحی کے ذریعے انسان کو مل سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن انسان کو موجودِ ابدی قرار دیتا ہے، اس کا جسم فانی ہے لیکن روح لامحدود ہے، اسی لیے انسان کو اپنی جاودانگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ انبیاء نے ہمیں بتایا کہ مرنا فنا نہیں بلکہ ایک نئے وجود میں داخل ہونا ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے اخلاقیات کو انسانی اوصاف کا "طِب” قرار دیا اور فرمایا کہ اخلاق عارضی عہدوں کی طرح نہیں ہے بلکہ حقیقی اور دائمی حقیقت ہے۔ جیسے جسمانی بیماری کے علاج کے لیے طبیب کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی اخلاقی بیماریوں کے علاج کے لیے وحی اور انبیاء کی تعلیمات ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کائنات کی تمام نعمتیں انسان کے لیے مسخر کی گئی ہیں:

﴿سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾

لہٰذا انسان کو اپنی قدر پہچاننی چاہیے اور اپنے وجود کو معمولی یا بے قیمت نہیں سمجھنا چاہیے۔

اس موقع پر انہوں نے موجودہ ماہرینِ طب و اساتذہ کی خدمات کو سراہا اور ان کی عزت و کامیابی کے لیے دعا کی۔

ملاقات کے آغاز میں حاضرین نے اپنے تعلیمی و تحقیقی اور طبی منصوبوں کی تفصیلات پیش کیں اور علمی تبادلے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button