مقالہ جات

فلسطینی عوام میں بے چینی

qudsمشرق وسطی میں ڈکٹیٹروں کےخلاف عوامی تحریکوں کے زور پکڑنے کے بعد کہا جارہاہےکہ فلسطینی عوام اب محمود عباس کی انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور محمود عباس کے خلاف عوام کا غصہ بڑھتا ہی جارہاہے۔ اسی بارےمیں مرحوم یاسر عرفات کے سابق مشیر علا اسعد صفطاوی کہتےہیں کہ پوری فلسطینی قوم محمود عباس سے سخت ناراض ہے اور عنقریب ہم فلسطینی عوام کو ان کےخلاف سڑکوں پردیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ  محمود عباس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہےہیں اور اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی پالیسیاں شکست خوردہ ہیں اور ناکام ہوچکی ہیں۔ فلسطین حکام نے بارہا کہا ہے کہ یاسر عرفات نے صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شکست کا تدارک دوہزار کی تحریک انتفاضہ سے کردیا ہے اور اپنی جان دیکر صیہونی حکومت کےساتھ امن معاھدہ کرنے کا تاوان بھی ادا کردیا ہے جبکہ محمودعباس اپنی غلط پالیسیوں پر اصرار کرکے بدستور فلسطینی قوم کے مفادات کے خلاف قدم اٹھارہےہیں۔ اسرائیل فلسطین امن معاھدہ جو انیس سو ترانوےمیں معرض وجود میں آیا مشرق وسطی نام نہاد امن مذاکرات کا نتیجہ تھا۔ یہ معاھدہ توقع سے پہلے ہی ناکام ہوگيا اس کی سب سےبڑی دلیل دوہزار چھےمیں فلسطین کے عام انتخابات میں بڑے مارجن سے حماس کی کامیابی تھی۔ فلسطینی عوام نے اس طرح تنظیم فتح کو منفی جواب دیا تھا اور حماس کو ووٹ دیکر صیہیونی حکومت کےخلاف مزاحمت کی حمایت کی تھی۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ فلسطینی عوام نے اپنے آگاہانہ انتخاب سے پی ایل او کے رہنماوں کو یہ پیغام دیدیا تھا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات بے ثمر اور بے فائدہ ہیں اور فلسطینی قوم کے حقوق حاصل کرنے کی واحد راہ مزاحمت اور جدوجہد ہے۔ واضح ہے کہ دوہزار چھےمیں پی ایل او، اور فتح کی شکست کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت نے محمود عباس اور اسکے ٹولے کی مدد کرنے میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اور غزہ کو غرب اردن سے الگ کرنے کی سازش چل کر غزہ کا محاصرہ کردیا اور بائيس روز تک وحشیانہ حملے بھی کئے ۔ ان تمام اقدامات کا مقصد حماس اور مزاحمت کا کام تمام کرنا تھا لیکن امریکہ اور صیہونی حکومت کی یہ سازش بھی ناکام رہی اور حماس آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔غزہ پر صیہونی حکومت کی بائیس روزہ جارحیت کے دوران اھل غزہ کی استقامت و صبر مثالی بن گيا اور انہوں نے اپنی اس مزاحمت سے محمود عباس اور ان کے ٹولے کو ایسا سبق سکھایا ہےکہ یہ فلسطین کی تاریخ میں ثبت رہے گا۔ایسی صورتحال میں جبکہ مشرق وسطی میں عوامی تحریکیں اپنے عروج پرہیں فلسطینی مبصرین اور سیاسی شخصیتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ عوامی تحریک فلسطین میں بھی شروع ہوسکتی ہے۔ محمود عباس نے صیہونی حکومت کو مراعات دے کر فلسطینی کاز سے خیانت کی ہے اور اب فلسطینی سیاسی رہنما ان کےبارےمیں کھ رہےہیں کہ ابومازن بارش سے فوارے کی آغوش میں پناہ لے رہے ہیں اور صیہونیوں سے امریکیوں کی آغوش میں اور امریکیوں سے یورپیوں کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کررہےہیں ۔ ماہرین کی نظر میں یہ ایسا معاملہ ہے جس کا فائدہ مغرب اور صیہونی حکومت کو ہوگا اور نقصان صرف اور صرف فلسطین کا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button