مقالہ جات
فلسطینی عوام میں بے چینی
![quds](images/stories/2010/06/quds.gif)
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ فلسطینی عوام نے اپنے آگاہانہ انتخاب سے پی ایل او کے رہنماوں کو یہ پیغام دیدیا تھا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات بے ثمر اور بے فائدہ ہیں اور فلسطینی قوم کے حقوق حاصل کرنے کی واحد راہ مزاحمت اور جدوجہد ہے۔ واضح ہے کہ دوہزار چھےمیں پی ایل او، اور فتح کی شکست کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت نے محمود عباس اور اسکے ٹولے کی مدد کرنے میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اور غزہ کو غرب اردن سے الگ کرنے کی سازش چل کر غزہ کا محاصرہ کردیا اور بائيس روز تک وحشیانہ حملے بھی کئے ۔ ان تمام اقدامات کا مقصد حماس اور مزاحمت کا کام تمام کرنا تھا لیکن امریکہ اور صیہونی حکومت کی یہ سازش بھی ناکام رہی اور حماس آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔غزہ پر صیہونی حکومت کی بائیس روزہ جارحیت کے دوران اھل غزہ کی استقامت و صبر مثالی بن گيا اور انہوں نے اپنی اس مزاحمت سے محمود عباس اور ان کے ٹولے کو ایسا سبق سکھایا ہےکہ یہ فلسطین کی تاریخ میں ثبت رہے گا۔ایسی صورتحال میں جبکہ مشرق وسطی میں عوامی تحریکیں اپنے عروج پرہیں فلسطینی مبصرین اور سیاسی شخصیتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ عوامی تحریک فلسطین میں بھی شروع ہوسکتی ہے۔ محمود عباس نے صیہونی حکومت کو مراعات دے کر فلسطینی کاز سے خیانت کی ہے اور اب فلسطینی سیاسی رہنما ان کےبارےمیں کھ رہےہیں کہ ابومازن بارش سے فوارے کی آغوش میں پناہ لے رہے ہیں اور صیہونیوں سے امریکیوں کی آغوش میں اور امریکیوں سے یورپیوں کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کررہےہیں ۔ ماہرین کی نظر میں یہ ایسا معاملہ ہے جس کا فائدہ مغرب اور صیہونی حکومت کو ہوگا اور نقصان صرف اور صرف فلسطین کا ۔