مقالہ جات
تیونس کے بعد مصر
تیونس سے شروع ہونے والا احتجاجی طوفان شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک تک پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ تیونس میں عوامی شورش اور زین العابدین بن علی کے فرار کے بعد احتجاجی مظاہروں کی شدت نے مصر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی کے ساتھ اردن اور یمن بھی عوامی احتجاج کے طوفان کی لپیٹ میں ہیں۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے علاوہ اسکندریہ، سویز، اسماعیلیہ اور پورٹ سعید جیسے اہم شہروں میں بھی مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ صرف چند دنوں کے مظاہرے سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مصر میں حکومت مخالف تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور مصر کے ناقابل شکست آمر حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال مبارک کو اپنا جانشین بنا کر اقتدار منتقل کرنے کا منصوبہ مکمل کر چکے تھے۔ لیکن تیونس سے شروع ہونے والے عوامی حتجاج نے اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹیں حائل کر دی ہیں۔ فی الحال جمال المبارک اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ کے دارالحکومت لندن منتقل ہو گئے ہیں۔
حسنی مبارک نے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ قاہرہ سمیت کئی شہر فوج کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ مصر پر طویل عرصے سے مسلط آمر حسنی مبارک کو ان کے سرپرست امریکا نے اپنی روایت کے مطابق ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے جمعہ کو قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور ایک گھنٹے تک مصر کی صورتحال کا جائزہ لیا انہوں نے اجلاس کے بعد حسنی مبارک پر زور دیا ہے کہ وہ تمام ضروری اصلاحات نافذ کرنے پر توجہ دیں۔ ہیلری کلنٹن نے بھی مصری حکام سے کہا ہے کہ وہ مظاہروں کے حوالے سے عوام کے حقوق کا احترام کریں۔ جبکہ سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ اور سابق ڈیمو کریٹ صدارتی امیدوار جان کیری نے حسنی مبارک سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تیونس میں عوامی احتجاج کے آغاز کے بعد سے امریکا اور مغربی دنیا نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی کے ترجمان جریدے فارن پالیسی میگزین نے تیونس کے بعد مصر، الجزائر، اردن سمیت تقریباً تمام اہم ممالک میں تبدیلی کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ ان ممالک میں طویل عرصے سے ظم و جبر اور تعذیب و تشدد جاری ہے، لیکن آج تک کسی بھی مغربی حکومت یا امریکا کے حکمرانوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی دہائی نہیں دی۔ تمام ممالک تبدیلی اور انقلاب کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے اس خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان ممالک پر مسلط امریکا کا غلام حکمراں طبقہ جسے آج کی زبان میں اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے مصنوعی تبدیلی کا کھیل نہ شروع کر دے۔ ان تمام ممالک میں قیادت کے بغیر احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ تیونس کی صورتحال سامنے ہے۔ بظاہر زین العابدین بن علی کے فرار کو انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی طبقہ اب تک اصل حکمراں ہے جو زین العابدین بن علی کا دست و بازو تھا۔ جس طرح پاکستان سے امریکا نواز سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دیا گیا ہے، اسی طرح تیونس کے آمر کو محفوظ راستہ دے دیا گیا۔ سابق فوجی آمر کی اہلیہ اربوں کی مالیت کے سونے کے ذخائر لے کر گئی ہیں۔ اس طرح تو فرار نہیں ہوتا۔ یہی صورتحال مصر میں بھی ہے۔
مصر میں حسنی مبارک کے متبادل کی حیثیت سے مغرب اور امریکا کی بااعتماد شخصیت اور عالمی جوہری توانائی کے ادارے کے سابق سربراہ محمد البرادی پہلے سے میدان میں موجود ہیں۔ تیونس، مصر، اردن اور یمن میں عوامی احتجاج کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے موجودہ حکمران امریکا کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔ پہلی جنگ خلیج اور عراق پر امریکی حملے کے بعد سے موجودہ ”وار آن ٹیرر“ تک لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کا خون بہہ گیا ہے۔ حالات کی رفتار بہت تیز ہے۔ مغرب کے تخلیق کردہ عالمی نظام کے شر اور فساد کی ہولناکی اور تباہی ظاہر ہو گئی ہے۔ حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب فساد کا حقیقی تجزیہ کیا جائے گا اور متبادل حقیقی قیادت سامنے آئے گی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ مغرب زدہ سیکولر قیادت نے اپنی قوم سے بے وفائی ہی کی ہے۔ بدعنوانی، کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری مغربی اتحاد کے تلخ پھل ہیں جو دنیائے انسانیت کو چکھنے پڑ رہے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا آخری دینِ کامل جب تک غالب اور نافذ نہیں ہو گا فساد ختم نہیں ہو سکتا۔
"روزنامہ جسارت”