إنا على العہد” — شہید سید حسن نصر اللہؒ کی پہلی برسی پر عظیم الشان سیمینار، علامہ شفقت شیرازی کا خطاب
انہوں نے کہا کہ مقاومت جسے شہداء نے اپنے خون سے زندہ کیا وہ صرف حزب اللہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ امت مسلمہ کی بیداری کا استعارہ بن گئی

شیعیت نیوز: ایم ڈبلیو ایم شعبۂ اصفہان کے زیرِ اہتمام سردارِ مقاومت شہید سید حسن نصر اللہؒ اور ان کے شہید رفقاء کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان سیمینار بعنوان “إنا على العہد” منعقد ہوا، جس میں طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
سیمینار سے مجلسِ وحدت المسلمین پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے خطاب کرتے ہوئے شہداء کی قربانیوں اور ان کے مشن پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جس شخصیت کے لیے ہم آج یہاں جمع ہوئے ہیں، ان کا ہمارے اوپر حق ہے۔ انبیائے کرامؑ نے دینِ الٰہی کی حفاظت کے لیے بے مثال قربانیاں دیں؛ کسی کو آروں سے چیرا گیا، کسی کا سر قلم ہوا اور کسی کو جلا وطن کیا گیا، لیکن سب نے شہادت کو سعادت سمجھا، کیونکہ شہادت ہی دین کے ابدی پیغام کو زندہ رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : شہید سید حسن نصر اللہؒ — امتِ مسلمہ کے دلوں میں زندہ مزاحمت کا چراغ
علامہ شفقت شیرازی نے کہا کہ ایک قوم کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اسے ایسا رہبر ملے جو جوانوں کو حسینی اور کربلائی بنا دے۔ لبنان کو ایسا قائد نصیب ہوا جس نے نہ صرف قیادت کا حق ادا کیا بلکہ میدانِ عمل میں سب سے آگے رہے۔ 1997ء میں جب سید حسن نصر اللہؒ نے اپنے فرزند کو خدا کی راہ میں قربان کیا تو فرمایا: “آج میرے بیٹے نے مجھے سرخرو کر دیا۔” یہ ان کی صداقت اور استقامت کی روشن دلیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقاومت جسے شہداء نے اپنے خون سے زندہ کیا وہ صرف حزب اللہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ امت مسلمہ کی بیداری کا استعارہ بن گئی۔ سیدؒ نے فلسطین کی بے لوث حمایت کی، یمن کے حق میں آواز بلند کی اور ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی۔ ان کے ہمراہ ان کے برادرِ عزیز سید ہاشم صفی الدین افکارِ مقاومت کے ترجمان اور عملی معاون تھے۔
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے امور خارجہ کے سربراہ نے کہا کہ طاقت کے عدم توازن کے باوجود کامیابی حاصل رہی۔ اسرائیل اور عرب کے خائن حکمرانوں کے پاس وسائل کی بھرمار تھی، لیکن سید حسن نصر اللہؒ نے غزوۂ احزاب کی یاد تازہ کرتے ہوئے بے مثال جرأت اور بصیرت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جب غزہ اور قدس کو مٹانے کی سازش کی گئی تو سیدؒ نے اعلان کیا: “ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔” یہ اعلان صرف الفاظ نہ تھے بلکہ عملی میدان میں ثابت قدمی کے ساتھ تاریخ رقم کی۔
انہوں نے شہید سید حسن نصر اللہؒ کو قیادت کا عملی اسلوب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیدؒ درباری ملّاؤں کی طرح صرف منبر کے خطبوں تک محدود نہ تھے۔ ان کا منبر میدانِ کارزار تھا۔ ان کی نصیحت ان کے عمل میں، دعا ان کے قدموں میں اور خطبہ ان کی جدوجہد میں نظر آتا تھا۔
ڈاکٹر شفقت شیرازی نے کہا کہ سیدؒ سے محبت صرف شیعوں تک محدود نہ تھی، بلکہ ان کے چاہنے والوں میں عیسائی، اہل سنت اور دیگر مکاتبِ فکر کے افراد بھی شامل تھے۔ ان کے جنازے میں تقریباً 80 ممالک کے عوام شریک ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سیدؒ ایک مکتب، ایک نظریہ اور امت مسلمہ کی بیداری کا استعارہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہید یحییٰ سنوار نے سیدؒ کو لکھا تھا: “یا سید! ہو جائے ایک اور کربلا، ہم سب شہید ہو جائیں گے، لیکن دشمن کے سامنے ہرگز سر نہیں جھکائیں گے۔” یہی وہ عزم تھا جسے سیدؒ نے عملی میدان میں زندہ کر دکھایا۔
آخر میں مجلس وحدت مسلمین شعبۂ اصفہان نے سیمینار کے انعقاد میں تشکل سلمان فارسی کے خصوصی تعاون پر شکریہ ادا کیا۔