اہم ترین خبریںایرانمقبوضہ فلسطین

معاہدہ ابراہیم امت مسلمہ کے لیے سنگین تباہی کا پیش خیمہ ہے، ایرانی وزیر خارجہ

سید عباس عراقچی نے او آئی سی اجلاس میں اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف عملی اقدامات پر زور دیا

شیعیت نیوز : ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ امتِ اسلامی کو کسی بھی قسم کی سستی یا تردید کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے، کیونکہ معاہدہ ابراہیم جیسے معاہدوں پر بھروسہ کرنا بڑا نقصان اور امتِ مسلمہ کے لیے سنگین تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔

عراقچی نے روزنامہ الشرق الاوسط میں شائع اپنے ایک مضمون میں کہا کہ جدہ میں اسلامی وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر عالمی ضمیر کو فوری طور پر اس سب سے بڑے خطرے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جو عالمِ اسلام کو درپیش ہے، جو کہ صہیونی غاصب حکومت ہے۔ اسرائیل غزہ کو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنانے اور اسے جلتی زمین میں بدلنے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی افواج نے وحشیانہ انداز میں خواتین و بچوں کے قتل عام کو منظم کیا ہے، بارہا غزہ کے شہریوں کو جبری طور پر بے گھر کیا، بھوک اور قحط کو نسل کشی کے ایک نئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، حتیٰ کہ غذائی مراکز کو معصوم و بھوکے بچوں اور عورتوں کے لیے موت کے جال میں بدل دیا۔ یہ سب ایک ہولناک انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکا ہے جو محض ایک عارضی جنگ یا عام انسانی بحران نہیں بلکہ ایک منظم اور مکمل نسل کشی ہے جو امریکہ و مغرب کی خاموش حمایت کے سائے میں انجام پا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان ایران کے دورے پر روانہ

ایرانی وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ صہیونی جرائم صرف غزہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے عزائم پورے خطے پر محیط ہیں۔ مغربی کنارے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر قانونی آبادکاری، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، القدس کی مسلسل یہودی سازی، بارہا جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزیاں، لبنان پر حملے، یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی، شام کی حکومت کو کمزور کرنے اور اسے تقسیم کرنے کی سازشیں، اور حالیہ ایران پر فوجی جارحیت جس میں ایک ہزار سے زیادہ ایرانی شہری شہید ہوئے، یہ سب مل کر صہیونی توسیع پسندی کو عیاں کرتے ہیں۔

عراقچی نے صہیونی حکام کے ان بیانات اور جعلی نقشوں پر بھی روشنی ڈالی جن میں وہ نام نہاد "گریٹر اسرائیل” پیش کرتے ہیں۔ یہ نقشے اور بیانات واضح طور پر اس غاصب حکومت کے توسیع طلب عزائم اور ہمسایہ ممالک کے خلاف ان کے خطرناک منصوبوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

عباس عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضہ اور اس کے باشندوں کو زبردستی دور دراز علاقوں میں جلاوطن کرنا دراصل فلسطینی قوم کے خلاف جاری نسل کشی کی ایک نئی کڑی ہے۔ صہیونی جنگی مجرمین، جو پہلے ہی بین الاقوامی عدالتوں میں مطلوب ہیں، اپنے بیانات اور اقدامات کے ذریعے واضح طور پر یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کا منصوبہ ایک پہلے سے طے شدہ نسل کشی ہے تاکہ غزہ کی جغرافیائی و سیاسی شناخت کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے اور فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے۔

عراقچی نے کہا کہ یہ غاصب حکومت ایک طرف غزہ، لبنان اور خطے کے دیگر حصوں میں جنگ بھڑکا رہی ہے اور بنیادی ڈھانچے تباہ کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف بمباری اور تباہ کاری کے ذریعے شام کو تقسیم کرنے اور صوبہ سویدا جیسے علاقوں میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر آج شام نشانہ ہے تو کل کس ملک کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا اس کی لامحدود توسیع پسندی کے لیے کوئی سرحد متصور کی جاسکتی ہے؟

ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق، صہیونی وزیر اعظم کے حالیہ بیانات اور اقدامات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ نام نہاد ’’گریٹر اسرائیل‘‘ محض ایک وقتی نعرہ نہیں بلکہ ایک اعلان شدہ سیاسی اور عسکری منصوبہ ہے جس کے ذریعے شام، اردن، مصر، لبنان، کویت، عراق اور حتیٰ کہ سعودی عرب کی خودمختاری، سرحدی سالمیت اور قومی سلامتی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ تصور اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور صہیونی حکومت کی پوری امتِ اسلامیہ پر تسلط کی نیت کو آشکار کرتا ہے۔

عراقچی نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں امریکہ اور بعض مغربی طاقتوں کی حمایت اور تعاون، نہ صرف اسرائیلی جرائم میں براہ راست شراکت داری ہے بلکہ خطے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ امریکہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو بار بار ویٹو کرکے اس ادارے کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اسرائیلی جنگی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے روک رہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم کا یہ ہنگامی اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب فلسطین کی صورتحال تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور الفاظ اس انسانی و اخلاقی المیے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ تباہی کے اعداد و شمار سے ہی انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں 70 ہزار سے زائد شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اوسطاً روزانہ 38 فلسطینی بچے اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں غزہ کا 90 فیصد حصہ ناقابلِ سکونت ہوچکا ہے اور اسرائیل نے وہاں کھلم کھلا فوجی قبضہ شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں بے بس شہریوں کو جنوبی علاقے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

عراقچی نے کہا کہ ان سب کے باوجود صہیونی وزیر اعظم مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ فخر سے اعلان کرتا ہے کہ وہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ اعلان صاف ظاہر کرتا ہے کہ صہیونی حکومت اردن، مصر، لبنان، شام اور حتیٰ کہ سعودی عرب تک کی سرزمینوں پر قبضے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

انہوں نے امتِ اسلامی اور عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ موجودہ حقائق کے پیش نظر اب کسی بھی قسم کا فریب، خاموشی یا بے حسی ناقابلِ قبول ہے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس محض ایک رسمی نشست نہ ہو بلکہ ایک تاریخی سنگ میل بنے، جو امتِ اسلامیہ کو صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کی لامتناہی توسیع پسندانہ سازشوں کو روکنے کے لیے متحد کرے۔

عراقچی نے کہا کہ یہ اجلاس صرف ہمدردی کے اظہار اور تشویش کے بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ امتِ اسلامیہ کے لیے ایک تاریخی آزمائش ہے اور شاید چند باقی رہ جانے والے مواقع میں سے ایک ہے جس کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے علاقائی و عالمی سطح پر مضبوط اتحاد تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ یہ اجلاس اس وقت کامیاب ہوگا جب یہ محض قراردادوں اور بیانات سے آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ سیاسی و سفارتی دباؤ کے عملی اقدامات اختیار کرے، تاکہ صہیونی حکومت کو نسل کشی روکنے اور اس کے توسیع طلب منصوبوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاسکے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اسرائیل کے جنگی مجرم رہنماؤں کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف اور عالمی فوجداری عدالت کے ذریعے قانونی کارروائی اور ان کی سزا، ساتھ ہی اسرائیل پر جامع فوجی و اقتصادی پابندیاں، فوری اور ناگزیر ضرورت ہیں۔ انہوں نے اس امر پر بھی تاکید کی کہ ایک محفوظ انسانی راہداری، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی نگرانی میں قائم کی جانی چاہیے تاکہ غزہ کے محصور اور بے یار و مددگار عوام تک خوراک، ادویات اور ایندھن فوری اور بلا رکاوٹ پہنچایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس اجلاس کو انہی اقدامات کی ہم آہنگی کے لیے ضروری قدم سمجھتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے منشور، نسل کشی کنونشن اور 1949 کی جنیوا کنونشنز کے تحت ہماری قانونی ذمہ داری ہے کہ ہم غزہ اور مغربی کنارے کے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے عملی اور قاطع فیصلے کریں۔

عراقچی نے تاکید کی کہ امتِ اسلامیہ کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ «معاہدہ ابراہیم» جیسے فریب دھندہ وعدوں پر اعتماد ایک بڑا نقصان ہے، جو امت کے مسائل کو اور گہرا کر دے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ صہیونی جرائم کے مقابلے میں خاموشی اور بے عملی، دراصل فلسطینی مظلوموں کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے اور یہ نہ صرف اصولِ اخلاقی اور انسانی تمدن کی بنیادوں سے انحراف ہے بلکہ خطے کی سلامتی، خودمختاری اور ارضی سالمیت کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ شعار دینے، بیانات جاری کرنے اور محض مذمت کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اب وقت ہے کہ امتِ اسلامیہ گفتار اور کردار دونوں میں متحد ہو، قاطع فیصلے کرے اور ان پر عملدرآمد کے لیے بھرپور تعاون کرے۔

عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ تاریخ امتِ اسلامی کو ان لمحات میں پرکھے گی، اور یہی وقت ہے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں کہ امتِ اسلامیہ اپنے سب سے مشکل اور فیصلہ کن دور میں بھی مظلوم کی حمایت اور ظالم کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلامی دنیا کا تحفظ، خطے کے ممالک کی خودمختاری اور سب سے بڑھ کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالحکومت قدس شریف ہو، سب کچھ اس پر منحصر ہے کہ او آئی سی اس غاصب اور طفل کش حکومت کے خطرے کے خلاف کیا جرأت مندانہ فیصلہ کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button