فلسطینی شہید صحافی کی وصیت، فلسطین مسلمانوں کا گوہر ہے، اسے مت بھولنا
صہیونی بمباری میں شہید ہونے والے صحافی کی وصیت نامہ امت مسلمہ کے نام جذباتی اپیل بن گیا

شیعیت نیوز : غزہ میں صہیونی حکومت نے نہ صرف عام شہریوں اور بے گناہ بچوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا ہے بلکہ امدادی کارکنوں اور حقائق دنیا تک پہنچانے والے صحافی بھی اس ظلم سے محفوظ نہ رہ سکے۔ درجنوں رپورٹر، کیمروں اور قلم کو ڈھال بنائے، بمبار طیاروں اور راکٹوں کے سائے تلے سچائی کو دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ انہی میں شہید انس شریف بھی شامل ہیں، جو جبالیا کیمپ کی گلیوں سے اٹھ کر فلسطین کی آزادی کی پکار بنے۔ صہیونی بمباری نے ان کی جان تو لے لی مگر ان کا آخری پیغام اور وصیت ایک عہد اور امانت کی صورت میں باقی ہے۔ ایسا پیغام جو امتِ مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں، بلکہ مسلمانوں کے تاج کا گوہر اور ہر آزاد دل کی دھڑکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اربعین حسینی میں خواتین کا تاریخی و سماجی کردار
شہید انس شریف کا وصیت نامہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
اگر یہ الفاظ آپ کے ہاتھوں تک پہنچ گئے ہیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی پوری طاقت اور صلاحیت کے ساتھ کوشش کی کہ اپنے عوام کا سہارا اور آواز بن سکوں۔ جس دن میں نے جبالیا کیمپ کی گلیوں اور محلّوں میں آنکھ کھولی، اسی دن سے میری خواہش تھی کہ اللہ مجھے زندگی دے تاکہ میں اپنے گھر والوں اور پیاروں کے ساتھ اپنے اصل شہر مقبوضہ عسقلان لوٹ سکوں۔ مگر اللہ کی مشیت غالب آ گئی اور اس کا حکم نافذ ہوگیا۔
میں نے دکھ سہا اور بارہا درد اور محرومی کا ذائقہ چکھا۔ اس کے باوجود میں نے کبھی حقیقت کو جیسا کہ ہے، بغیر کمی بیشی اور بغیر تحریف دنیا تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی۔ مجھے یہ امید تھی کہ اللہ ان لوگوں پر گواہ ہو جو خاموش رہے، اور ان پر بھی جو ہمارے قتل عام پر راضی رہے اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے جسموں کو دیکھ کر بھی نہ کانپے، اور جنہوں نے اس ایک سال اور چھ ماہ سے جاری قتل عام کو نہ روکا۔
میں آپ کو فلسطین کی وصیت کرتا ہوں جو مسلمانوں کا گوہر اور دنیا کے ہر آزاد انسان کے دل کی دھڑکن ہے۔ میں آپ کو اس کے عوام اور اس کے مظلوم، ننھے بچوں کی وصیت کرتا ہوں۔ وہ بچے جنہیں زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ خواب دیکھ سکیں اور امن و سکون کے ساتھ جی سکیں، اور جن کے پاکیزہ جسم اسرائیلی بموں اور راکٹوں کے ہزاروں ٹن وزن کے نیچے چور چور ہوگئے، اور جن کے جسم کے ٹکڑے دیواروں پر بکھر گئے۔
میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ نہ زنجیریں آپ کو خاموش کرسکیں اور نہ سرحدیں آپ کو روک سکیں۔ آپ مقبوضہ فلسطین کی پل بنیں، تاکہ عزت اور آزادی کا سورج ہمارے غصب شدہ وطن پر طلوع ہو۔
میں آپ کو اپنے خاندان کی وصیت کرتا ہوں۔ میری آنکھوں کا نور، میری پیاری بیٹی "شام”، جسے وقت نے یہ مہلت نہ دی کہ میں اس کی پرورش کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں جیسا کہ میں نے اپنے خوابوں میں سوچا تھا۔
میرے پیارے بیٹے "صلاح”، جس کے بارے میں میری آرزو تھی کہ میں اس کا یاور اور زندگی کا ساتھی بنوں، تاکہ وہ بڑا ہوکر میرا بوجھ ہلکا کرے اور میرے مشن کو آگے بڑھائے۔
میں آپ کو اپنی ماں کی وصیت کرتا ہوں، وہ ماں جن کی دعاؤں کی برکت سے میں جو کچھ بنا، بنا۔ ان کی دعا میری پناہ گاہ اور میرے راستے کا نور تھی۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل کو سکون دے اور ان کو بہترین اجر عطا کرے۔
میں آپ کو اپنی شریکِ حیات "ام صلاح – بیان” کی وصیت کرتا ہوں، وہ بیوی جسے جنگ نے دنوں اور مہینوں تک مجھ سے جدا رکھا، مگر وہ ایک مضبوط زیتون کے تنے کی طرح اپنے عہد پر قائم رہی، صابر اور باایمان رہی، اور میری غیر موجودگی میں امانت کو بہترین طریقے سے نبھایا۔
میری موت کے بعد، ان کا سہارا اور پشت پناہ بنیے۔ اگر میں مرجاؤں تو اپنے اصولوں پر ثابت قدمی سے مروں گا، اور گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں، اس سے ملاقات پر ایمان رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہی بہتر اور دائمی ہے۔
اے اللہ! مجھے شہیدوں میں شامل فرما، میرے گذشتہ اور آئندہ گناہ معاف فرما، اور میرے خون کو ایک ایسا نور بنا جو میرے عوام اور سرزمین کی آزادی کا راستہ روشن کرے۔
اگر میں نے کوئی کوتاہی کی ہے تو مجھے معاف کیجیے اور میرے لیے رحمت کی دعا کیجیے؛ کیونکہ میں اپنے عہد پر قائم رہا اور نہ کوئی تبدیلی کی نہ تحریف۔
غزہ کو مت بھولیے… اور مجھے اپنی دعا سے محروم نہ کیجیے کہ اللہ میری مغفرت فرمائے اور میری قربانی کو قبول کرے۔