اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقبوضہ فلسطین

ڈیجیٹل مزاحمت کی طاقت: سوشل میڈیا پر فلسطینی مظلومیت کی آواز

آن لائن تنقید اور عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کی ساکھ کو پہنچنے والا شدید نقصان

شیعیت نیوز : جدید ڈیجیٹل دور میں جنگ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ موبائل اسکرینوں، ٹوئٹر ہیش ٹیگز اور انسٹاگرام پوسٹس میں بھی لڑی جا رہی ہے۔ آج ہر فرد چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، صرف ایک اسمارٹ فون کی مدد سے ایک میڈیا رپورٹر، ایک سماجی کارکن اور ایک اوپینئن لیڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔

غزہ میں جاری صہیونی جارحیت کے دوران لاکھوں صارفین نے مظلوم فلسطینیوں کی حقیقت پر مبنی لرزہ خیز تصاویر اور ویڈیوز لمحوں میں دنیا بھر تک پہنچائیں۔ بھوک سے بلکتے بچے، ملبے میں دبے لاشے، اور تباہ شدہ بستیوں کے مناظر ایسی ناقابل تردید شہادتیں بن کر ابھرے جنہوں نے صہیونی حکومت کے جھوٹے سرکاری بیانیے کو چیلنج کر کے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

سوشل میڈیا اب تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک مزاحمتی محاذ ہے۔ یہ فوری ردعمل کا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو صہیونی پروپیگنڈے کا متبادل بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اس منظرنامے میں فلسطینی عوام کی آواز صرف چند صحافیوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ لاکھوں صارفین کی اجتماعی گواہی نے اسے ایک عالمی تحریک کی صورت دے دی ہے۔

سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف ابھرنے والی تنقیدی مہم کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک منظم، اعداد و شمار پر مبنی، مؤثر مزاحمتی تحریک ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس اور سروے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس ڈیجیٹل مزاحمت کے نتیجے میں صہیونی حکومت کی عالمی ساکھ شدید نقصان پہنچا ہے۔ آج کے دور میں خبریں اور تصاویر ظلم کے خلاف ایک عالمی عدالتی بیانیہ قائم کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔

فلسطین کے حامی صارفین کی ڈیجیٹل مزاحمت کی نمایاں مثالوں میں سے ایک ایکس اور انسٹاگرام پر ہیش ٹیگ "#GazaIsStarving” کا تیزی سے پھیلاؤ ہے۔ یہ ہیش ٹیگ جو اب تک لاکھوں بار دیکھا اور شیئر کیا جا چکا ہے، غزہ میں جاری انسانی المیے کی براہ راست عکاسی کرتا ہے۔

اس ہیش ٹیگ کے تحت شائع ہونے والے مواد میں وہ ہولناک تصاویر اور ویڈیوز شامل ہیں جن میں بچے شدید غذائی قلت کا شکار نظر آتے ہیں، عام شہری معمولی خوراک کے لیے امدادی قطاروں میں کھڑے صہیونی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں، اور وہ خاندان دکھائے جاتے ہیں جو ملبے کے ڈھیر میں روزمرہ کی خوراک ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔

یہ ڈیجیٹل بیانیہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ قابض صہیونی حکومت کس طرح غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر بھوک کو ایک جنگی ہتھیار میں تبدیل کر چکی ہے۔

رپورٹوں کے مطابق، سینکڑوں فلسطینی امدادی مراکز کے قریب شہید کیے جا چکے ہیں اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایجنسی انروا کو بھی غزہ میں کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ یہ سب اس تلخ حقیقت کی گواہی ہے کہ خوراک اور امداد کی ترسیل کو باقاعدہ ایک ظالمانہ پالیسی کے تحت روکا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : یمن سے میزائل حملے کے بعد بن گوریان ایئرپورٹ پر پروازیں معطل

گزشتہ دنوں الجزیرہ ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی کہ یہ ڈیجیٹل مواد، جو دنیا بھر کے صارفین بڑی تیزی سے شیئر کر رہے ہیں، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کی وہ تصویر دکھاتا ہے جو پہلے کبھی اس شدت کے ساتھ عالمی رائے عامہ کے سامنے نہیں آئی تھی۔

سوشل میڈیا پر جاری تنقیدی لہر اب بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی ساکھ کو زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔ تازہ ترین سروے، جو پیو ریسرچ سینٹر نے 3 جون 2025 کو 24 ممالک میں انجام دیا، اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ صہیونی حکومت اور نتن یاہو کے بارے میں عالمی رائے عامہ شدید منفی ہو چکی ہے۔

اس جامع سروے کے مطابق، 24 میں سے 20 ممالک میں واضح اکثریت نے اسرائیل کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا۔ یہ منفی رجحان حتیٰ کہ اسرائیل کے روایتی اتحادیوں میں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں 2013 میں 44 فیصد افراد اسرائیل کے خلاف منفی رائے رکھتے تھے، جو اب بڑھ کر 61 فیصد ہو چکی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں بھی پچھلے تین برسوں کے دوران یہ تناسب 11 فیصد بڑھا ہے۔

اس رپورٹ کے گہرے تجزیے سے دو بڑے سماجی و فکری خلا سامنے آتے ہیں:

  • نسلی یا عمر کا فرق: ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا اور فرانس میں نوجوان نسل، بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں اسرائیل کے بارے میں کہیں زیادہ منفی رائے رکھتی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ نسل چونکہ معلومات زیادہ تر آزاد اور فلٹر سے پاک آن لائن ذرائع سے حاصل کرتی ہے، اس لیے وہ سرکاری بیانیوں کو کم قبول کرتی ہے اور فلسطینی مظلومین سے زیادہ ہمدردی رکھتی ہے۔

  • نظریاتی فرق: بیشتر ممالک میں بائیں بازو اور لبرل نظریات رکھنے والے افراد اسرائیل کی پالیسیوں پر زیادہ سخت تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 74 فیصد لبرلز اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جبکہ دائیں بازو کے افراد میں یہ شرح صرف 30 فیصد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل پر تنقید اب عالمی انصاف پسند تحریکوں کا مرکزی موضوع بنتی جا رہی ہے۔

رپورٹوں میں یہ بھی ذکر ہے کہ صرف اسرائیلی حکومت ہی نہیں بلکہ نتن یاہو کی ذاتی مقبولیت بھی زوال کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک میں بھی اب انہیں قیادت کے لیے ناقابل اعتماد سمجھا جا رہا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ آن لائن تنقید صرف وقتی جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ایک پائیدار، ڈیجیٹل اور فکری تبدیلی کی علامت ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو عالمی سطح پر رائے عامہ تشکیل دے رہی ہے اور عالمی طاقتوں کو جواب دہ بنانے کی طرف لے جا رہی ہے۔

صہیونیت کے حامی ادارے اور خود صہیونی حکام بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے ردعمل میں مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کو یہود دشمنی کا لیبل دے کر بدنام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسی رپورٹس کا سہارا لیتے ہیں، جیسے اینٹی ڈیفیمیشن لیگ "ADL” کا حالیہ سروے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی یہود دشمن رجحانات رکھتی ہے اور یہ رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

تاہم، حالات کا گہرا تجزیہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ایک قابض اور ظالم حکومت پر اس کی ظالمانہ پالیسیوں کی بنیاد پر تنقید کو کسی قوم یا مذہب سے نفرت کے مترادف قرار دینا نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ غیر منصفانہ بھی۔ پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں منفی رائے دراصل اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں اور ذاتی طور پر نتن یاہو کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ خصوصاً مغربی معاشروں میں نوجوان نسل اور لبرل حلقے، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کی بنیاد پر اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان کا ہدف کوئی مذہبی گروہ نہیں بلکہ ایک سیاسی و عسکری ڈھانچہ ہے۔

یہود دشمنی کے الزامات کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا، جو کبھی تنقید کو خاموش کرانے کے لیے مؤثر تھا، اب بدلتی ہوئی عوامی شعور اور معلوماتی شفافیت کے سامنے اپنی افادیت کھو رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق، سوشل میڈیا پر صہیونی حکومت مخالف سرگرمیاں عارضی نہیں بلکہ ان کے درمیان ایک گہری ہم آہنگی ہے۔ ایک طرف ڈیجیٹل ایکٹیویزم، اور دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں بنیادی تبدیلی۔ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کو مسلسل تقویت دے رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے لرزہ خیز مناظر، بھوکے بچوں کی تصویریں، تباہ شدہ مکانات، اور امداد کی قطاروں میں شہریوں کی شہادتیں اب محض بکھری ہوئی کہانیاں نہیں بلکہ عالمی بیانیے کو شکل دینے والی زندہ شہادتیں بن چکی ہیں۔

اس کے برعکس، صہیونی حکومت اور اس کی حامی لابیوں کی دفاعی حکمتِ عملی یہود دشمنی کے الزامات کے گرد گھوم رہی ہے لیکن یہ حربہ بھی اب ڈیجیٹل شفافیت کے سامنے بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل، جو میڈیا کے شعور کے ساتھ پروان چڑھی ہے، بخوبی یہ فرق کر سکتی ہے کہ تنقید ایک حکومت پر ہے، نہ کہ کسی مذہب یا نسل پر۔ جب اعتراضات واضح طور پر غزہ کے محاصرے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، اور نتن یاہو کی جنگی پالیسیوں پر ہوں، تو ان پر یہود دشمنی کی تہمت لگانا خود غیر اخلاقی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button