ایران جوہری پروگرام اور NPT تعاون کے مؤقف پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے، ایرانی وزیر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ تہران ممکنہ طور پر NPT کے ساتھ اپنے تعاون کے مؤقف پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔

شیعیت نیوز : حال ہی میں اسرائیلی-امریکی جارحیت کے تناظر میں سفارتی دورے کے بعد العربی الجدید کو دیے گئے انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران ہمیشہ سے NPT کے اصولوں کی پابندی کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ معاہدہ ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کے تحفظ میں مؤثر ثابت نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے گذشتہ 20 سالوں میں شفافیت اور اعتماد سازی کے لیے بھرپور کوششیں کیں، لیکن ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ اسی وجہ سے اب اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی اور ممکن ہے کہ اسلامی جمہوری ایران اپنے جوہری پروگرام اور NPT سے متعلق رویے میں تبدیلی لائے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال وہ اس تبدیلی کی سمت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ ایرانی قوم نے پُرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، حتیٰ کہ اس سلسلے میں کئی سائنسدانوں نے اپنی جانیں تک قربان کیں۔ اس لیے کوئی بھی اس ٹیکنالوجی کے حصول کو نہیں روک سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جب ان سے اسرائیلی-امریکی جارحیت اور تہران کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس تنازعے میں امریکہ کی مداخلت دراصل اسرائیل کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ایران دباؤ کے آگے جھک جائے گا۔ لیکن ایران کے جدید میزائل سسٹم سے سخت جواب کے بعد دشمن پیچھے ہٹے اور جنگ بندی کی پیشکش کی۔
یہ بھی پڑھیں : ایرانی میزائل حملوں سے اسرائیل کو تاریخی نقصان: صہیونی ذرائع کا اعتراف
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی طرف سے خطے میں امریکی فوجی اور انٹیلیجنس اڈوں پر کیے گئے حملے دفاعِ از خود کے تحت تھے، اور انہیں ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ عراقچی نے مزید کہا کہ ایران کے خطے کے ممالک، خاص طور پر قطر، کے ساتھ تعلقات تاریخی اور سماجی بنیادوں پر قائم ہیں۔
اس تنازعے کے دوران اپنی سفارتی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد ایران کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے، جارح قوتوں کی شناخت اور مذمت کرنا، اور دیگر ممالک کو جارحیت کے خلاف مؤقف اختیار کرنے کی ترغیب دینا ہے تاکہ سیاسی سطح پر رُکاؤٹ ڈالی جا سکے۔
روسی مؤقف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماسکو نے اسرائیلی-امریکی جارحیت کے خلاف مضبوط اور واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس ایران کے جوہری امور میں ایک مؤثر فریق ہے اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں، بشمول بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ، میں تعاون کر رہے ہیں۔
انہوں نے خطے کے ممالک کے مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا اور خطے کے عوام نے ایران کے خلاف جارحیت کی بھرپور مذمت کی اور ایرانی قوم سے اظہارِ یکجہتی کیا۔