مقالہ جات

افغان طالبان اور شیعہ علماء کا قتل: ڈاکٹر راشد عباس نقوی کا کالم

 شیعیت نیوز: ہرات اور کابل میں مقامی طالبان حکام کی طرف سے افغانستان کے عوام بالخصوص شیعہ مسلمانوں اور ان کے علماء کی سلامتی کے حوالے سے کئے گئے وعدے کو ابھی چند دن بھی نہیں گزرے ہیں کہ ہرات نے شیعہ مسلمانوں  پر دہشت گردانہ حملے اور دو شیعہ علماء کرام کے قتل کا مشاہدہ کیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں صوبہ ہرات میں شیعہ مسلمانوں بالخصوص شیعہ علماء پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور افغان معاشرے کو جس چیز نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہے، وہ ٹارگٹ کلنگ ہے، جس میں مذہبی اسکالرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ 23 ​​نومبر کو نامعلوم مسلح افراد نے دو علماء کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ ہرات شہر کے مرکز میں ہوا۔ اگرچہ طالبان کے مقامی حکام نے اس طرح کے حملوں کی تکرار کو روکنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن دہشت گردوں نے صوبہ ہرات میں اپنا جرم دہرا کر فوری طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان افغانستان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور ڈیتھ اسکواڈ اب بھی جو چاہیں، کرسکتے ہیں۔ قتل و غارت گری اور عدم تحفظ اور خوف و ہراس پیدا کرنا دہشت گردوں کا اہم ہدف ہے۔

سکیورٹی اور اسٹریٹجک امور کی ماہرہ نجمہ اقبال کہتی ہیں: "دہشت گرد ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھ کر افغانستان میں دو بنیادی اہداف حاصل کر رہے ہیں، پہلا، افغان عوام کی سلامتی قائم کرنے کے حوالے سے طالبان کی طاقت اور صلاحیت کو چیلنج کرنا اور دوسرا، افغانستان کو ایک اندرونی مذہبی جنگ کی طرف دھکیلنا۔” اگرچہ خبروں میں، دہشت گردوں کو گمنام اور نامعلوم پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ ماننا مشکل ہے کہ طالبان ان لوگوں کو نہیں جانتے یا انہیں پہچاننے سے قاصر ہیں۔

ہرات کے مقامی ذرائع کی یہ رپورٹ کہ صوبہ ہرات کے 13 ویں شہری علاقے میں آٹھ افراد کو گولی مار دی گئی تھی، یہ خبر صوبہ ہرات کی طالبان انتظامیہ کے لئے ایک بہت بڑا سکیورٹی چیلنج ہونا چاہیئے، کیونکہ یہ قتل و غارت تقریباً ایک ہی علاقے میں ہوئی اور جاری ہے۔ اس دہشت گردانہ حملے میں پانچ افراد شہید اور تین شدید زخمی ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فائرنگ ایک کار کے اندر سے ایک تھری وہیلر رکشے کی طرف کی گئی، جس میں دو شیعہ علماء اور ان کے اہل خانہ موجود تھے۔

پچھلی دہائیوں میں جب افغانستان اندرونی مسائل اور یہاں تک کہ امریکی قبضے کا شکار تھا، اس ملک کو اس طرح کے فرقہ وارانہ یا مذہبی تنازعہ کی طرف نہیں لے جایا گیا، بلکہ تنازعات کی بنیاد ہمیشہ نسلی رہی۔ لیکن گذشتہ دو سالوں میں افغانستان میں طالبان کی حکومت میں واپسی کے بعد سے، اس ملک میں دہشت گردانہ حملوں کا اصل ہدف مذہبی مقامات اور مذہبی اسکالرز رہے ہیں، جو منظم دہشت گرد تحریکوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک اس کو باہر سے چلایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حقیقی ہولوکاسٹ :ڈاکٹر راشد عباس نقوی کی خصوصی تحریر

افغانستان کے سیاسی امور کے ماہر سید عیسیٰ مزاری کہتے ہیں: "افغانستان کے عوام، شیعہ اور سنی دونوں ہی ہمیشہ پرامن زندگی گزارتے رہے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی افغانستان کے دشمنوں کو اس عمل میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن حالیہ برسوں میں مذہبی مقامات اور علمائے کرام پر دہشت گردوں کے حملے ایک نئی سازش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی اور تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اگر طالبان نے جلد از جلد اس کی نشاندہی کرکے انہیں تباہ نہ کیا تو اس ملک کی سلامتی کو مزید خطرات لا حق ہوجائیں گے۔”

بہرحال ہرات میں ہونے والے تازہ ترین دہشت گردانہ حملے میں، مسجد حضرت ابوالفضل (ع) کے امام محمد محسن حامدی اور مسجد رسول اعظم (ع) کے امام محمد تقی صدیقی کو شہید کر دیا گیا۔ علمائے کرام اور مذہبی مقامات کی سلامتی کا مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ کمزوری طالبان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور دہشت گردی کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرنے کے وعدے پر شکوک پیدا کرسکتی ہے۔ طالبان جو کہ دہشت گردانہ تحریکوں کے مقابلے میں خود کو ایک طاقتور گروہ تصور کرتے ہیں، حالیہ ہفتوں میں یہ ظاہر کرچکے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی کمزوریاں نمایاں ہیں۔

اگر طالبان قومی اور مقامی سطح پر دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف افغانستان میں ان کی گورننس پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کے مترادف ہوگا بلکہ طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے عمل کو بھی نقصان پہنچنے کا باعث ہوگا۔ افغانستان کے عوام طالبان کی حکومت سے دہشت گردوں کی شناخت، ان کی گرفتاری اور افغان معاشرے میں سلامتی اور امن کی واپسی کے وعدے پورا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ بہرحال افغانستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی جنگ کو ہوا دینے کے لیے جو ہاتھ کام کر رہے ہیں، اگر ان کا دائرہ مزید وسیع ہوتا ہے تو طالبان کے لیے حالات پر قابو پانا بہت زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button