اہم ترین خبریںمقالہ جات

شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی رح کے سیاسی وژن کا تجزیاتی مطالعہ

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ملت تشیع دو مختلف سیاسی نظریوں میں تقسیم ہے، ایک جو سیاست میں حصہ لینے کو حرام جانتے ہیں اور جمہوریت کے بغیر انقلاب لانا چاہتے ہیں جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ انقلاب جہموریت کے بغیر ناممکن ہے

شیعیت نیوز: تشکیل و قیام پاکستان میں ملت تشیع کا خون، دھن ،دولت اور ذہن دوسرے مسلمانوں کے ساتھ یکساں صرف ہوا، لیکن بدبختی یہ ہے کہ ملت تشیع نے قیام پاکستان کے بعد اگر کسی چیز کو غیر ضروری اور بے وقعت سمجھا تو وہ تھی ملکی سیاست میں شمولیت۔ ملت نے ہمیشہ عزاداری کی رسومات اور مجالس و جلوس کو سیاسی امور پہ ترجیح دی۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام اراکین جن میں اہل تشیع کی تعداد کچھ کم نہ تھی، انہوں نے سیاست کو دین سے جدا جانا اور ملکی سیاست کا محور دین کو نہیں بنایا۔ 1979ء میں ایران میں جب انقلاب کی کرن پھوٹی تو نہ صرف ایران بلکہ پوری امت مسلمہ دشمن کے سامنے سرخرو ہوگئی۔ اس کا اثر پاکستان کے روحانی حلقوں، قم اور ایران کے دیگر شہروں میں مقیم طلباء پر بہت گہرا تھا۔ اسی کرن سے مستفید ہونے والوں میں ایک ذات گرامی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی تھی، جو حقیقی معنوں میں فرزند خمینی (رہ) تھے۔

پاراچنار کے غیور پٹھانوں کی نسل سے حسینی سادات میں سے تھے، جن کے آباء و اجداد سب کے سب راہ امام حسین (ع) کے راہ رو تھے۔ یہی عارف حسین ملت پاکستان کے لیے امام خمینی (رہ) کے نورانی پیغام کے سفیر بن کر پاکستان آئے اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملت کو بیدار کیا۔ 10 فروری 1984ء مکتب خمینی کے فرزند نے سیاست کو شجرہ ممنوعہ سمجھنے والی قوم کی رہبری کا بیڑہ اٹھایا۔ مکتب خمینی (رہ) کے اس فرزند نے بکھرے ہوئے ہجوم کو تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود ایک قوم کی شکل دی اور ان میں ان کی خودی کی قوت کا شعور اجاگر کرتے ہوئے عملی سیاست میں حصے لینے پر آمادہ کیا۔ ایسی سیاست کہ جو تفرقہ کے بجائے اتحاد و وحدت امت پر مبنی تھی۔ ایسی سیاست جو پاکستان میں موجود تمام اسلامی مسالک کے لیے قابل قبول ہو۔

شہید قائد سیاست کو حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک اسلامی نظام کے قیام کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ شہید قائد نے دین و سیاست کی ضرورت کو درج ذیل وجوہات کی بنا پہ ثابت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران: عیسائی شہید وطن جانی بٹ اوشانا کی اشکبار آنکھوں کے ساتھ رخصتی

۱۔ حصول آزادی کے باوجود وطن عزیز میں مغربی ثقافت اور اقدار کے نفوذ کے خاتمے کے لیے قومی زندگی کو قرآن و سنت کی واضح ہدایات کے مطابق استوار کرنا۔
۲۔ احیائے اسلام کی مخالفت کرنے والی امریکہ اور مغربی دنیا کے اثر و نفوذ کا خاتمہ۔
۳۔ انقلاب اسلامی ایران کے نور سے مستفید ہوتے ہوئے پاکستان میں الہیٰ نظام کی راہ کو ہموار کرنا۔
۴۔ دنیا میں مسلمانوں کو کمزور تصور کرنے والی طاغوتی ظالم سامراج کے خلاف نعرہ حق کو بلند کرنا۔
۵۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور ایوان میں ایسے شیعہ نمائندے ہوں، جو کہ شیعہ مکتب فکر کی ترجمانی کریں اور من حیث القوم اس ملک میں اپنا سیاسی کرادر انجام دیں۔

شہید قائد سیاست کو اسلامی نظام کے نفاذ اور جمہوری و شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سازگار سمجھتے تھے۔ ملت جعفریہ نے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا تھا۔ اس نظریاتی جمود کو شہید قائد نے توڑا اور واضح کر دیا کہ ملی مفادات کا تحفظ عملی سیاست کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں۔ جمہوریت اور انتخابات، شہید عارف حسین الحسینی نے قرآن و سنت کانفرنسوں میں جمہوریت کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں تین بڑے مقاصد تھے، جن میں سے تیسرا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آئے، بادشاہت، ڈکٹیٹرشپ کے عنوان سے نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے آئے۔ پوری قوم کا نمائندہ بن کر حکومت کے تخت پر پہنچے۔ ان کا مقصد اسلامی نظام تھا اور ایسے قوانین کا نفاذ تھا، جو قرآن و سنت سے لئے گئے ہوں۔

شھید کہتے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو اور جو بھی اقتدار میں آئے، عوام سے منتخب ہو کر آئے، لیکن آج تک ہم صحیح طور پر ان کا یہ مقصد پورا نہیں کرسکے۔ جمہوری عمل ملک میں ختم ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں جمہوریت کو ملک میں نقصان پہنچا ہے، وہاں ہماری ملکی معیشت بھی مارشل لاء سے متاثر ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں ایک نمائندہ جمہوری حکومت برسر اقتدار نہیں آتی، تب تک ہمارا ملک مستحکم نہیں ہوگا۔ ملکی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ جنرل ضیاء الحق فوری طور پر جماعتی بنیادوں پر 1973ء کے آئین کے تحت انتخابات کروائے۔ جو بھی پارٹی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے، وہ حکومت بنائے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ اگر صحیح طور پر غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے اور ایک نمائندہ حکومت آئی تو ملک کی معیشت پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے اور اس سے ملکی استحکام بھی پیدا ہوگا۔

جب تک ملک میں صحیح نمائندہ حکومت نہیں بنے گی، ہمارے مسائل اور مشکلات چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی حل نہیں ہوسکتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صحیح نمائندہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں اسلامی نظام کی خواہاں ہے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے لئے قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں ایک ایسے اسلامی نظام کی خواہاں ہے، جو فرقہ واریت سے بالاتر ہو۔ آپ فرماتے ہیں: اگر آپ بغور ان (امریکہ و اسرائیل) کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کس طرح انسانیت کے دشمن ہیں۔ نام تو حقوق بشر کا اور جمہوریت کا استعمال کریں گے، بات تو جمہوریت کی کرتے ہیں، لیکن کس قدر جمہوریت کے دشمن ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خطے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی علاقائی امن و امان کیلئے چیلنج ہے، ایرانی وزیر خارجہ

اسی طرح امریکہ کو دیکھیں کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتا ہے، لیکن خود کس قدر جمہوریت کا احترام کرتا ہے کہ ایران میں ایک جمہوری حکومت ہے۔ عوام کے انتخابات کے ذریعے منتخب حکومت ہے (انقلاب اسلامی تو اپنی جگہ) لیکن ان کی اپنی منطق کے مطابق بھی یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اگر یہ جمہوریت کے دشمن نہ ہوتے تو آج ایران کی جمہوری حکومت کی مخالفت نہ کرتے۔ اس بات سے واضح ہے کہ طاغوتی اور استعماری طاقتیں نہ صرف دشمن اسلام ہیں بلکہ دشمن جمھوریت بھی ہیں۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو۔ شہید قائد نے دین اور سیاست کے ارتباط پر روشنی ڈالی، آپ نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے عزم کا اظہار فرمایا اور جمہوریت کی حقیقت اور اس کے دشمنوں کی نشاندہی فرمائی۔

قرآن و سنت کانفرنسز اور ان کے بعد ہونے والے آپ کے انٹرویوز کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اسلامی نظام کو جمہوریت کے قالب میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ آپ پاکستان میں اسلام اور حقیقی جمہوریت کے اجراء کے لئے انتخابات کا راستہ اپنانا چاہتے تھے۔ انتخابات میں دوسری جماعتوں سے الحاق کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہماری تحریک جو ایک مذہبی تنظیم ہے اور ہماری منزل مقصود اسلام ہے۔ ہم انتخابات کے حوالے سے کسی بھی پارٹی سے الحاق کرسکتے ہیں۔ البتہ ابھی ہم نے طے نہیں کیا ہے۔ ہمارا انتخاب کے حوالے سے اتحاد ہوسکتا ہے، لیکن کسی کے ساتھ ہم مدغم ہو جائیں، یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔ ہماری تحریک ایک مستقل، علیحدہ اور اپنا ایک منشور رکھتی ہے۔ اپنے اہداف و اغراض ہیں اور اپنے ادارات ہیں، الحمدللہ۔ ان شاء اللہ پورے ملک میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں، شمالی علاقہ جات میں ہماری بھرپور نمائندگی ہے۔

ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہماری جماعت ملک گیر جماعت ہے اور ہر جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں عوام کی حمایت اس تحریک کو حاصل ہے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایک خاص فقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کیا الیکشن میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دوسرے مسلک کے لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے تو آپ نے فرمایا: اس سلسلے میں یہ ہے کہ اصل مسئلہ منشور کا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہماری تحریک کا نام "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ” ایک فقہ کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے، لیکن ہمارا منشور ہے، جسے ہم نے ملک کے لئے بنایا ہے، اس میں اسلام کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس میں پاکستانی ہونے کے حوالے سے پاکستان کی ہے، شہریوں کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ہمارا منشور دیکھ لے گا، خواہ وہ سنی ہو، خواہ وہ شیعہ ہو، خواہ وہ غیر مسلم ہو، اگر انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے مسائل تحریک کے پلیٹ فارم سے حل ہوسکتے ہیں تو وہ ضرور تحریک کو ووٹ دیں گے۔

شہید قائد نے ضیاء الحق کی آمریت اور مارشل لاء کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے احتجاجی تحریک میں جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔ شہید نے کئی بار مختلف سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی، جن میں سرفہرست نوابزادہ نصر اللہ اور مولانا فضل الرحمان شامل ہیں۔ شہید کے سیاسی وژن کو جہاں اہل علم افراد نے قبول کیا، وہاں کچھ کم فہم و فراست رکھنے والے اہل علم افراد نے شدید مخالفت کی۔ ایسے حالات میں چند شیعہ علماء اور نامور شخصیات نے شہید کا ساتھ دیا۔ شہید نے جب قومی پلیٹ فارم سے ملکی سطح پر سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو لاہور میں ایک اجلاس کے دوران آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ ڈٹے رہے اور فرمایا کہ میں جو کہہ رہا ہوں، وہ امام خمینی کے کہنے پر کہہ رہا ہوں۔ اجلاس سے باہر نکل کر سب سے پہلے محمد علی نقوی کو بلوایا اور آپ سے پوچھا کہ اجلاس میں میری بات نہیں مانی گئی، تم مجھے بتاو تم میرے ساتھ ہو یا نہیں؟ ڈاکٹر نقوی نے بے ساختہ کہا کہ آغا "آپ کو چھوڑنا اسلام کو چھوڑنے کے مترادف ہے، میں آپ کے ساتھ ہوں۔”

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، ناصر کنعانی

الیکشن والی بحث نے بعد میں بہت شدت اختیار کی۔ 23 مارچ سن 1986ء کو لاہور میں وفاق المدارس کا اجلاس ہوا، جس میں اس موضوع کو بھی دانستہ طور پر ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا، اس اجلاس میں اس وقت کے تمام علماء کرام اور مدارس کے طلاب بھی جمع تھے، سب نے مل کر شہید حسینی کے سیاسی میدان میں اترنے کی شدید مخالفت کی اور بہت سخت تقاریر کی گئیں، لیکن شہید قائد اس مشکل کو بھی عبور کرگئے۔ شہید کی زندگی کی آخری پریس کانفرنس میں جو کہ جولائی 1988ء میں پارا چنار میں منعقد ہوئی، جب آپ سے پاکستان میں اسلامی حکومت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "پاکستان میں جو مذہبی تنظیمیں، مذہبی پارٹیاں ہیں، علماء ہیں، اگر یہ سب تنگ نظری کو چھوڑ دیں، اسلام کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھیں اور مل کر ایک مشترکہ پروگرام بنائیں اور مل کر کام کریں تو یہ بات ممکن ہے، ہم اس نظام کو کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔؟

جس نظام میں سپر طاقتوں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہو، جس نظام میں مغربی قوانین ہم پر مسلط ہوں۔ جس نظام میں مغربی تہذیب ہمارے گھروں میں، ہمارے معاشرے میں، ہمارے اسکولوں میں، غرض ہر جگہ روز بروز بڑھ رہی ہو۔ تو ہم نے احساس کیا کہ ہم جتنی جدوجہد کر لیں، انفرادی طور پر جتنی بھی کوشش کر لیں، لیکن اگر یہ غلط اور فاسد نظام ہم پر مسلط ہے تو ہم اپنی جدوجہد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی نظام قائم کریں گے۔ ہم کب تک بیٹھ کر یہ دیکھتے رہیں گے کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن میں ہوں۔۔۔۔۔ نہیں نہیں اسلامی غیرت ہمیں یہ اجازت نہیں۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ملت تشیع دو مختلف سیاسی نظریوں میں تقسیم ہے، ایک جو سیاست میں حصہ لینے کو حرام جانتے ہیں اور جمہوریت کے بغیر انقلاب لانا چاہتے ہیں جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ انقلاب جہموریت کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک وہ گروہ جو سیاست کا حصہ ہیں اور انقلاب و جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ سمجھتے ہیں۔ ملت تشیع کو عقلمندی اور دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے دونوں نظریات میں سے اس نظریہ کا انتخاب کرنا چاہیئے تو خط شہید قائد عارف حسین الحسینی کے قریب تر ہو۔ ملت تشیع پاکستان کے لیے واحد راہ نجات خط عارف حسینی ہے اور دراصل خط حسینی ہی خط خمینی (رہ) ہے۔

تحریر: سیدہ حجاب زہراء نقوی

متعلقہ مضامین

Back to top button