دنیا

پولینڈ کی مخاصمانہ پالیسیوں پر دیمتری مدودوف کی نکتہ چینی

شیعیت نیوز: روس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری مدودوف نے روس کے خلاف پولینڈ کی مخاصمانہ پالیسی پر تنقید کی ہے۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کے خلاف ایک نیا محاذ بنا لیا ہے۔

دیمتری مدودوف نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ یوکرین میں ہٹلر کے سابق اتحادی اسٹیپن بندیرا کے پیروکاروں کی پولش فوج میں موجودگی کا موجودہ حالات اور روسی میزائیلوں کی دقیق نشانہ بازی کی صلاحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

اسٹیپن بندیرا نے سوویت یونین پر نازیوں کے حملے کے ابتدائی مراحل میں ایڈولف ہٹلر کی حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد جرمنوں نے یوکرین کے مستقبل کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہونے کی وجہ سے اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

بندیرا جنگ کے بعد مغربی جرمنی بھاگ گیا اور انیس سو انسٹھ میں مارا گیا۔

پولینڈ نیٹو کے رکن ملکوں میں سے امریکہ کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے اور اس نے اب تک جدید ٹیکنالوجی کے حامل ڈھائی سو نئے ٹینکوں اور مرمت شدہ ایک سو سولہ ابراہمز ٹینکوں کا آرڈر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ہمیں نئی مزاحمتی نسل کا سامنا ہے، اسرائیلی فوجی تجزیہ کار

دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کو امریکہ کے شہر نیویارک سے باہر کسی اور ملک منتقل کرنے کی تجویز کو ایک اچھا آئیڈیا قرار دیا ہے کہ جس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہ جو اس وقت نیویارک میں موجود ہیں، سلامتی کونسل کے غیررسمی اجلاس کی سائیڈ لائن پر نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہت ہی اچھا ہو گا اگر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کو نیویارک سے کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے۔

اسی سلسلے میں کریملن ہاؤس کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کو کسی اور ملک منتقل کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے امریکہ کی جانب سے مختلف ملکوں کے سفارتی وفود اور میڈیا ٹیموں کو ویزوں کے اجرا میں مشکلات کھڑی کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے میزبان کی حیثیت سے امریکہ کی جانب سے ویزوں کے اجرا میں مشکلات کھڑی کیے جانے کے مسئلے میں روس اکیلا نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں کو بھی ویزوں کے اجرا میں ایسی مشکلات کا سامنا ہے اور انھیں بھی امریکہ سے ایسی ہی شکایات ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button