سعودی عرب

آیت اللہ النمر کی شہادت کے بعد سعودی شیعوں کے خلاف جاری آل سعود کے جرائم پر ایک نظر

شیعیت نیوز: سعودی عرب کے شمالی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں رہنے والے لوگوں کو آل سعود ہمیشہ انہیں اپنی حکومت کی بقا کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں اس لیے کہ سعودی خاندان کے خلاف سعودی عرب کی پوری تاریخ میں زیادہ تر احتجاجی تحریکیں اور سرگرمیاں انہیں قبائل نے تشکیل دی ہیں، سیاست میں فرقہ وارانہ نقطہ نظر کے ساتھ، آل سعود سعودی شیعوں کو ’’دوسرے درجے کے شہری‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ سعودی عرب کی آبادی کے تقریباً 15 سے 20 فیصد شیعہ اس ملک میں سب سے مظلوم اقلیت ہیں۔

سعودی عرب میں شیعہ علماء پر منظم جبر

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی جانب سے ستمبر 2005 میں سعودی عرب میں شیعہ مسئلہ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں عوامی عہدوں پر شیعوں کی نمائندگی کی کمی کو امتیازی سلوک کے ایک مظہر کے طور پر بیان کیا گیا ہے اس ملک میں نہ صرف یہ کوئی شیعہ وزیر یا شاہی نظام کا رکن منتخب نہیں ہوتا بلکہ مسلح افواج، محافظ دستوں، حفاظتی آلات، فضائی کمپنیوں اور تیل کمپنیوں میں انتظامی عہدوں جیسی ملازمتوں میں شیعوں کی ملازمت ممنوع ہے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سعودی شیعوں پر عائد بہت سی پابندیوں اور استثنیٰ کے علاوہ سعودی حکام کی طرف سے انہیں ہمیشہ منظم جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور آل سعود حکومت مختلف حیلوں اور بہانوں سے شیعوں بالخصوص علما کو تباہ کرنے کے لیے وسیع مہم چلاتی ہے، شیعہ علماء کی گرفتاری اور پھانسی انہیں دبانے کے لیے سعودی حکومت کا ایک عام طریقہ ہے جسے ہمیشہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی کا سامنا رہا ہے، شیخ توفیق العامر کا شمار سعودی عرب کے سرکردہ شیعہ علماء میں ہوتا ہے جنہیں 2005 سے لے کر اب تک متعدد بار مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور شیعوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور ان کی توہین پر تنقید کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور رہا کیا گیا لیکن 3 اگست 2011 کو انہیں گرفتار کرنے کے بعد اب تک رہا نہیں کیا گیا،شیخ حسین الرازی، شیخ حبیب الخاز، شیخ حسن الزاید،شیخ بدر آل طالب،شیخ محمد حسن زین الدین، شیخ محمد العطیہ، شیخ جلال آل جمال، سید جعفر العلوی، شیخ عبدالجلیل العیثان اور شیخ محمد حسن الحبیب سعودی عرب کے ان ممتاز شیعہ علماء میں سے ہیں جنہیں شیعوں کو دبانے کی سعودی حکومت کی مختلف مہمات میں گرفتار کیا گیا اور ابھی تک جیل میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : یمن، مغربی صوبہ الحدیدہ ایک بار پھر سعودی حملوں کے نشانے پر

شہید النمر؛ سعودی عرب میں استکبار مخالف کی علامت

شیخ نمر باقر النمر سعودی عرب کے سب سے مشہور شیعہ عالم ہیں جو آل سعود کے استکبار کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں اور ان کی پھانسی نے پوری دنیا کے شیعوں اور آزادی پسندوں کے غصے کو بھڑکا دیا، 7 سال قبل 2 جنوری 2016 کو شیخ نمر کو 46 دیگر افراد کے ساتھ ،جنگ اور قومی سلامتی کے خلاف کارروائی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی جس کے بعد سعودی حکام نے ان کی لاش بھی ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ، شیخ نمر کی شہادت کے بعد سیاسی حکام اور ممتاز شیعہ اور سنی شخصیات میں بہت سے منفی ردعمل سامنے آئے، خاص طور پر چونکہ ان کا واحد جرم سعودی شیعہ اقلیت پر عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنا تھا، یہ ممتاز سعودی شیعہ عالم دین 1968 عیسوی میں مشرقی عرب کے صوبے قطیف کے شہر العوامیہ میں ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم شہر العوامیہ میں مکمل کی اور 1989 عیسوی میں اسلامی انقلاب ایران سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ایران ہجرت کی اور تہران میں مدرسہ حضرت قائم میں تعلیم حاصل کی،تہران میں دس سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شیخ نمر شام گئے اور دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے مدرسہ حضرت زینب میں داخلہ لیا اور اس مدرسہ کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی،نمر باقر النمر نے بقیع میں مظلوم آئمہ کی قبروں کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں، 2004 سے 2007 تک وہ ہر سال آئمہ بقیع کی قبروں کی تباہی کی برسی کی یاد میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے تھے لیکن سعودی حکومت نے ہر بار اس کی مخالفت کی، سعودی حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود یہ برسی 2007 سے منعقد کی جا رہی ہے،اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں بھی جلوس نکالے گئے جس کا مقصد اماموں کی قبروں کو مسمار کرنے کی مذمت اور بقیع کی تعمیر کی حمایت کرنا تھا،سعودی حکومت نے شیخ نمر کو 2006، 2008 اور 2012 میں 3 مرتبہ گرفتار کیا گیا،فروری 2009 میں انہوں نے سعودی حکام کو خبردار کیا کہ اگر ہمارا وقار بحال نہ ہوا تو میں شیعوں کو سعودی عرب سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار کروں گا، ہمارا وقار ملک کی سالمیت سے زیادہ اہم ہے،اس تقریر میں انہوں نے آزادانہ انتخابات کا مطالبہ کیا،شیخ نمر النمر نے اپنے ایک خطبے میں کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے گرفتار کرنے کے لیے کل میرے پاس آئیں گے، آپکا خیر مقدم ہے! آپ کی منطق اور طریقہ یہی ہے: حراست، تشدد اور قتل، ہم قتل و غارت سے نہیں ڈرتے، ہم کسی چیز سے نہیں ڈرتے، شہید شیخ نمر نے عوامی سطح پر آل سعود کے سیاسی نظام کے ظلم، استبداد اور بدعنوانی کی مذمت کی اور سب کو اصلاح، آزادی اور اقتدار کی منتقلی کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے قیام پر متفق ہونے کی دعوت دی،شیخ نمر نے اپنی تقاریر میں مسلسل سیاسی تبدیلیوں، عوامی آزادیوں کو تسلیم کرنے، اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اور سعودی عرب میں قبائلی امتیاز کو ترک کرنے پر زور دیا ہے۔

سعودی عرب میں شیعوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سعودی عرب کے اس جرم کے 7 سال گزرنے کے بعد آل سعود کا مخالفین بالخصوص شیعوں کو قتل کرنے کا ٹریک ریکارڈ روز بروز تاریک ہوتا جا رہا ہے ، مارچ 2022 میں سعودی حکومت نے یوکرین کے بحران پر دنیا کی توجہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 81 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا،جن میں سے نصف سے زیادہ شیعہ تھے جنہیں جھوٹے الزامات کے تحت پھانسی دی گئی،جب کہ ان کے لیے کوئی سرکاری عدالت قائم نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کوئی وکیل موجود تھا،آل سعود کے نوجوانوں اور بچوں کی سزائے موت پر عمل درآمد ختم کرنے کے دعوؤں کے باوجود سعودی عرب میں یہ غیر قانونی پھانسیاں جاری ہیں، سعودی عرب میں بچوں اور نوعمروں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ 2011 میں اس ملک میں شیعہ مظاہروں کی لہر کے آغاز کے بعد تیز ہو گیا اور سعودی حکومت نے احتجاج میں حصہ لینے پر 13 سال کے بچوں کو بھی گرفتار کر کے پھانسی دے دی تھی، اپریل 2019 میں، سعودی حکومت نے 2011 کے پرامن احتجاج میں حصہ لینے والے 37 شیعوں کو ،دہشت گردی، کے الزام میں پھانسی دی جب کہ ان میں سے بہت سے نوجوان تھے، اس کے علاوہ، گزشتہ سال کے آخر میں، مصطفیٰ آل درویش، جس کی عمر صرف 17 سال تھی جب اسے 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا، کا سعودی ایجنٹوں نے سر قلم کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ جزیرہ نما عرب میں حزب اختلاف کے اجلاس نے حال ہی میں ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکومت نے آزادی اظہار رائے کے الزام میں گرفتار کیے گئے 53 افراد کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کیا ہے جن کا تعلق قطیف کے اہل تشیع سے ہے ، ان میں سے کم از کم 8 بچے ہیں جن میں سے زیادہ تر کے خلاف مقدمہ ہی نہیں چلایا گیا،اس کے بعد جن نوعمروں کو سعودی عدالت کے حکم کے مطابق پھانسی دی جا رہی ہے، ان پر مکمل طور پر غیر قانونی حالات اور ان کی عمر کے غیر متناسب مقدمات میں مقدمہ چلایا گیا نیز مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا، ان کے خاندانوں کو اپنے بچوں کے دفاع کا کم سے کم حق نہیں تھا اور وہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا کر دفن بھی نہیں کر سکتے، قدامت پسند سعودی معاشرے میں علامتی آزادیوں اور مغربی ثقافت کے فروغ کے سلسلے کی آڑ میں تخت تک پہنچنے کے لیے ایک خونی راستے کا انتخاب کرنے والے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حزب اختلاف کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، شیعہ جو شروع سے سعودی عرب میں سب سے زیادہ محروم ہیں اور اس ملک کا سب سے مظلوم طبقہ ہے، بن سلمان کی نئی پالیسیوں کے سائے میں سب سے زیادہ نقصان انہیں کو ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button