اہم ترین خبریںپاکستان

تاریخ کے بدترین سانحہ بابوسر میں شیعہ نسل کشی کو 10 سال گذرگئے، قاتل تاحال آزاد

سانحہ چلاس اور کوہستان کے بعد سانحہ بابوسر کے شہداء بھی منوں مٹی تلے محو آرام ہیں اور ان سانحات کے خلاف جاری تفتیش اور کمیشن کی رپورٹیں اور فائلیں دیگر بدبودار فائلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دب کر رہ گئیں

شیعیت نیوز: تاریخ کے بدترین سانحہ بابوسر میں شیعہ نسل کشی کو 10 سال بیت گئے لیکن قاتلوں کو تاحال گرفتار نہ کیا جاسکا۔ شہداء کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 16 اگست 2012ء کوگلگت بلتستان کی تاریخ میں ظلم کا ایک نیا باب اس وقت رقم ہوا جب دہشت گردوں نے چلاس میں بابوسر کے مقام پر راولپنڈی سے استور اور گلگت جانے والی تین مسافر بسوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرکے 11 شیعہ مسافروں کو بسوں سے اتار کر صفوں میں کھڑا کرکے فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔

سکیورٹی اداروں کے وردی میں ملبوس دہشتگردوں نے شیعہ خون کی یہ ہولی دن کے اجالے میں نہایت تسلی سے کھیلی اور سکیورٹی اداروں کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ بابوسر ٹاپ پر ایک درجن کے قریب شیعہ مسافروںکو شہید کرنے کے بعد دہشتگرد اطمینان کے ساتھ پہاڑوں پر چڑھ گئے اور باآسانی فرار ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری لاپتہ شیعہ صحافی زاہد عباس ملک کی ضمانت منظور، رہائی کا عدالتی حکم جاری

آج اس افسوسناک سانحے کو گزرے10 سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن دہشتگردوں کو نشان عبرت بنانے کا خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

سانحہ چلاس اور کوہستان کے بعد سانحہ بابوسر کے شہداء بھی منوں مٹی تلے محو آرام ہیں اور ان سانحات کے خلاف جاری تفتیش اور کمیشن کی رپورٹیں اور فائلیں دیگر بدبودار فائلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دب کر رہ گئیں۔ سانحہ بابوسر میں شہید ہونے والوں میں کراچی کے مشہور قاری اور خاص طور پر دعائے کمیل کی تلاوت کی مناسبت سے مشہور قاری حنیف بھی شامل تھے جبکہ دیگر شہداء میں غلام نبی، مشرف، یعقوب، ڈاکٹر نثار، دولت علی، اشتیاق، ساجد، محمد مظہر، جلال الدین اور غلام مصطفٰی شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button