شہید قاسم سلیمانی (SQS)مشرق وسطی

شہید سلیمانی، ایک ایسا مکتب کہ جس نے عالمی استکبار کا حساب کتاب درہم برہم کر رکھا ہے، عرب ای مجلے

شیعیت نیوز: اسلامی مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں جنرل قاسم سلیمانی اور حاج ابومہدی المہندس کی دوسری برسی کے موقع پر عرب ای مجلے العہد نے اپنی خصوصی نشریات میں دونوں شہداء کی راہ و روش کے حوالے سے آڈیو یادداشتوں و رپورٹوں کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

عرب ای مجلے نے اپنی ایک رپورٹ میں ایرانی سپاہ قدس کے شہید کمانڈر کے خون سے وجود میں آنے والے مزاحمتی مکتب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی کی، عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر حاج ابومہدی المہندس و رفقاء کے ہمراہ، بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملے میں ہونے والی شہادت کو 2 سال گزرنے کو ہیں جبکہ انہیں شہید کرنے والے صیہونیوں و امریکیوں کے لئے تاحال اس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف اس گھناونے جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیونکہ استکباری طاقتوں کو سنگین جرائم کے ارتکاب اور عالمی، انسانی اور جنگی قوانین کی پائمالی کی عادت ہو چکی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے انہیں ایک مکتب میں بدل ڈالا ہے جس کے باعث وہ حدود و بنیادیں جو انہوں نے ڈالی تھیں نہ صرف مزید مستحکم ہوئی ہیں بلکہ وسیع تر بھی ہو رہی ہیں۔

شہید کمانڈروں کی دوسری برسی کے حوالے سے العہد نے لکھا کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنی پوری زندگی پر مشتمل مزاحمت کے لمبے رستے کے دوران ان قاتلوں کے خلاف برسرپیکار رہے جبکہ ان کی پوری کی پوری زندگی جدوجہد، پیکار اور مزاحمتی محاذ کے ادارے پر مبنی تھی جس کے دوران انہوں نے متعدد عظیم اہداف بھی حاصل کئے۔

عرب ای مجلے نے ان اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی کے بعد اب ان اہداف نے کہ جن کے بارے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی حاصل ہو جائیں گے؛ ان قاتلوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں درحالیکہ انہی اہداف کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے عالمی استکبار جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مجبور ہوا تھا لیکن اب وہ اپنی ٹارگٹ کلنگ کی گھناؤنی کارروائی کے بعد اس طرف متوجہ ہوا ہے کہ یہ اہداف پہلے کی نسبت اب نہ صرف تعداد میں دوگنا بلکہ اپنی تاثیر میں بھی کہیں زیادہ دردناک تر، مؤثر تر اور خطرناک تر ہو گئے ہیں.. لیکن سوال یہ ہے کہ اس رستے کے باقی رہنے اور جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کے مکتب کی بقاء و روز افزوں توسیع کا راز کیا ہے؟ وہ ایسی کون سی توانائیاں رکھتے تھے کہ جن کی بنیاد پر آج کی توسیع و پیشرفت حاصل ہو رہی ہے؟

یہ بھی پڑھیں : ظالم سعودی حکمرانوں کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہونے والے آیت اللہ باقرالنمر کی چھٹی برسی منائی جارہی ہے

العہد نے لکھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اپنے فوجی و جہادی رستے کے آغاز میں عراق ایران جنگ کے دوران اپنے چھوٹے سے یونٹ کی کمانڈ سے ہی اور حتی عراق میں شہادت کے وقت بھی قدس بریگیڈ کی فوجی کمانڈ، مزاحمتی محاذ کی سربراہی اور تمام جنگی و تعلیمی میادین میں کچھ اس انداز میں ہر کرشماتی صلاحیتوں کے حامل رہے کہ اس زمانے میں دوبدو لڑی جانے والی جنگ میں نہ صرف ایک ماہر کمانڈر کے طور پر ابھرے بلکہ انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروہوں اور ان کے ہر ایک مجاہد و کمانڈر کو، اپنی موجودگی میں اس کی ذمہ داریوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ بنا کر عالمی استکبار کی جانب سے مسلط کردہ دوبدو جنگ میں عظیم فتح حاصل کر لی..

عرب مجلے نے لکھا کہ علاوہ ازیں، خطے و بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق اعدادوارقام کے حوالے سے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی خاص نگاہ ایک تزویراتی کمانڈ پر مبنی تھی جبکہ ان کی سپریم لیڈر جیسی شخصیت کو میدانی جنگ، انتظام و انصرام اور تزویراتی اہداف کے لئے فوجی اقدامات کی ہم آہنگی نے صیقل دے کر انتہائی نکھار رکھا تھا حتی کہ انہیں القصیر، شہر و صوبے حلب، اثریا ہائی وے اور تدمر کے خناضر جیسے علاقوں میں موثر مقامات کے چناؤ میں مہارت حاصل ہو چکی تھی۔

شامی سرزمین پر امت مسلمہ کے خلاف مسلط کردہ بین الاقوامی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عرب ای مجلے نے لکھا کہ اسی طرح شام کے بوکمال سے لے کر عراق کے قائم تک کے محاذ کی جانب جنرل قاسم سلیمانی کی ایک خاص توجہ تھی، وہ بھی ٹھیک اس مرحلے کے بعد کہ جس میں انہوں نے ایک انتہائی درست و تزویراتی اندازہ گیری کے ذریعے اس علاقے میں موجود عوامی مزاحمتی محاذ اور سرکاری افواج کے درمیان گہری ہم آہنگی پیدا کی اور شام و عراق کے درمیان داعش کا رابطہ کاٹ کر رکھ دیا۔

عرب ای مجلے العہد نے لکھا کہ علاوہ ازیں وہ؛ مسئلۂ استحکام کی اہمیت و حساسیت کی صحیح معنوں میں سمجھ بوجھ کے حامل کہ جس کا عملی نمونہ ان کی جانب سے لبنان و عراق کے ساتھ شامی سرحدوں کو انتہائی پرامن بنانا تھا؛ اور انتہائی دور اندیش و مزاحمتی محاذ کے مستقبل ساز کمانڈر تھے۔

لبنانی ای مجلے نے لکھا کہ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں پورے کے پورے مزاحمتی محاذ پر پھیلے وسیع میدان جنگ کی جانب ان کی گہری تزویراتی نگاہ عیاں ہوتی ہے؛ ایک ایسی جدوجہد کہ جس کے سخت ترین مرحلے میں، اس وقت مزاحمتی محاذ خطے اور عالمی طاقتوں کے خلاف میدان میں اتر چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : شہید قاسم اور ان کے جگری دوست شہید ابو مہدی المہندس میں آخری بار کیا باتیں ہوئیں؟

عرب ای مجلے نے اپنی خصوصی رپورٹ کے دوسرے حصے میں لکھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی قومی و ملکی سمجھ بوجھ کے سبب فلسطین کے اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی حفاظت کے حوالے سے بھی اس مزاحمتی منصوبے کے بارے انتہائی جدت پسندانہ نگاہ کے حامل تھے جس کے ہمراہ غزہ کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان بھی غاصب اسرائیلی دشمن کے خلاف براہ راست برسرپیکار ہے اور اپنے اسی نکتۂ نظر کے باعث انہیں غزہ سے لے کر جنوبی لبنان تک پھیل جانے والے مزاحمتی محاذ کے لئے ایک آئیڈیل کمانڈر اور متاثر کن منصوبہ ساز کا مقام حاصل ہو چکا تھا۔

العہد نے لکھا کہ دوسری جانب، وہ ہمیشہ ہی فلسطینی عوامی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت میں صف اول پر رہتے تھے؛ ایسی مزاحمتی تحریکیں کہ جنہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے جاویدانی اثرات کے مرہون منت یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ غاصب و قابض صیہونیوں کے خلاف (سیف القدس کے مانند) مزاحمتی جنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں کیونکہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ان اولین افراد میں سے تھے کہ جنہوں نے فلسطینی جدوجہد کی بنیادوں کی توسیع میں بنیادی کردار کیا تھا جس کے سبب آج غاصب صیہونی حکومت کے لئے سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے نتائج انتہائی سنگین و تباہ کن ہو چکے اور جنہوں نے غاصب صیہونی حکومت کی غنڈہ گردی کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے درحالیکہ وہی غاصب صیہونی کہ جنہوں نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ جما کر اس جنگ کا آغاز کیا تھا، آج ایک عظیم پریشانی میں مبتلاء ہیں۔

عرب ای مجلے نے نتیجہ گیری کرتے ہوئے لکھا کہ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک جانب سے غاصب صیہونی و قابض امریکی دشمن کے خلاف جدوجہد اور مزاحمتی محاذ کے انتظام و انصراف پر مبنی شہید جنرل قاسم سلیمانی کی صلاحیتیں جبکہ دوسری جانب امریکی و اسرائیلی دہشت گردی ہی امریکہ کی جانب سے اس بات کے باوجود شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی فیصلے کے اٹھائے جانے کا باعث بنی، کہ یہ فیصلہ خود امریکیوں کے لئے انتہائی خطرناک اور خطے میں حساسیت سے بھرا ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں خلیج فارس، یمن، مقبوضہ فلسطین، لبنان، عراق و شام سمیت مغربی ایشیاء اور پورے خطے میں جنگ کے شعلے بلند ہو جانے کا خطرہ موجود تھا۔

العہد نے اپنی رپورٹ کے آخر میں لکھا کہ لیکن امریکیوں کی جانب سے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا فیصلہ اٹھائے جانے کا اصلی محرک ’’مکتبِ قاسم سلیمانی‘‘ تھا کہ جس کی بنیاد قابض دشمنوں کے خلاف؛ حتی طاقت و وسائل کی کمی کے باوجود بھی، ہر صورت میں مزاحمت پر رکھی ہوئی تھی۔

اس مجلے نے لکھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کا یہ مکتب بڑھتا گیا اور پیشرفت کرتے کرتے اپنے استحکام کو جا پہنچا جہاں اس نے غاصب صیہونی رژیم و امریکہ کی جانب سے ناقابل اعتراض قرار دیئے گئے ان کے اقدامات؛ کہ جن کے بارے وہ سوچتے تھے کہ ان کے ساتھ مقابلے کی کسی میں جرأت تک نہیں، کو بھی مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے۔

العہد نے آخر میں لکھا کہ آج ایک دوسرے قریب الوقوع وعدے کی وقوع پذیر بھی نزدیک ہے اور وہ عراق سے امریکہ کو نکل جانے پر مجبور کر دینا ہے کیونکہ یہ قبضہ ہر قیمت پر ختم کیا جانا چاہئے اس لئے کہ یہ مسئلہ اب مزاحمتی محاذ کے لئے ایک مقدس عہد میں بدل چکا ہے اور شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ حاج ابومہدی المہندس و رفقاء کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کا ایک سنگین نتیجہ ہے!

متعلقہ مضامین

Back to top button