مقبوضہ فلسطین

فلسطینی اسلامی اوقاف کو بے دست وبا کرنے کی اسرائیلی سازش کا انکشاف

شیعیت نیوز: فلسطینی ایوان صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے اسلامی اوقاف اور مسجد اقصیٰ کے حفاظتی عملے کو بے دست وپا کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے ایوان صدر کے مشیر احمد الرویضی نے کہا کہ قابض ریاست نے مسجد اقصیٰ پر اپنا تسلط مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کے اعلانیہ دھاووں کو سپورٹ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے محافظ عملے کے ایک بڑے حصے کو قبلہ اوّل سے بے دخل کردیا ہے۔ اس کے علاوہ قبلہ اول کے محافظوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لیا گیا ہے اور بہت سے محافظوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کے باب العامود سے سلوان کے مقام تک کھدائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی اوقاف مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور کا ذمہ دار ادارہ ہے جو مسجد اقصیٰ میں کسی قسم کی تعمیر، ترمیم، مرمت، تحفظ، سیکیورٹی اور دینی امور کا ذمہ دار ہے۔

اسرائیلی پولیس کا مسجد اقصیٰ کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اسرائیلی پولیس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قبلہ اول کے 144 دونم علاقے میں قسم کسم کی مداخلت کرے۔

یہ بھی پڑھیں : متحدہ عرب امارات یمن میں دہشت گرد گروہوں کا بڑا اسپانسر ہے، ھنا عدن

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر طولکرم میں فلسطینی شہری آبادی میں داخل ہونےوالے دو یہودی شرپسند بہ حفاظت اسرائیلی حکام کے حوالے کردیے۔

عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق قابض فوج نے ’راستہ گم‘ ہونے پر فلسطینی آبادی میں داخل ہونے والے دو آباد کاروں کو سیکیورٹی تحفظ فراہم کیا جس کے بعد قابض اسرائیلی فوج کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون کے تحت انہیں اسرائیلی فوج کے حوالے کردیا گیا۔قابض اسرائیلی فوجیوں کو جبارہ فوجی چیک پوسٹ سے قابض فوج کو دیا گیا۔

خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کی طرف سے غاصب صیہونیوں کے ساتھ یہ ’مشفقانہ سلوک‘ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں موجود غاصب صیہونیوں نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ فلسطینیوں کی جان ومال پر آئے روز دسیوں بار حملے کیے جاتے ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس غاصب صیہونیوں کی میزبانی کرتی اور انہیں بہ حفاظت واپس کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button