دنیا

انسانی حقوق کے اداروں کے خلاف صیہونی ریاست کی مکروہ جنگ

شیعیت نیوز: فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں پر ظلم ڈھانے کے سلسلے کی دوسری کڑی  اسرائیلی ریاست کی طرف سے ان کی جاسوسی اور ان کے سمارٹ فونز کو ہیک کرنا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کی ورک ڈائری میں کیا چل رہا ہے۔

قابض دشمن فلسطینی انسانی حقوق کے اداروں کے کام کو ایک خوردبین کے نیچے رکھتا ہے۔ دشمن کو اپنے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے مستقبل کے لیے خوفزدہ ہے جو جنگی جرائم کے ارتکاب کے بعد سزا پا کر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پنجرے کے مہمان بن سکتے ہیں۔

دو ہفتے قبل اسرائیل نے انسانی حقوق کے 6 اداروں کو دہشت گرد تنظیموں میں شامل کرتے ہوئے انہیں بلیک لسٹ کردیا تھا جو کہ نام نہاد ’’ایسوسی ایشن مانیٹر‘‘ ایسوسی ایشن کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر مبنی فیصلے پرعمل درآمد کی مجرمانہ کوشش تھی۔ یہ نام نہاد مانیٹر ایسوسی ایشن اپنے سخت گیر موقف اور فلسطینی اداروں کے خلاف نفرت پر اکسانے کے لیے مشہور ہے۔ جسے ’’انسداد دہشت گردی‘‘ قانون 2016 میں جاری کیا گیا۔

فیصلے میں متعدد اداروں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا گیا۔ کیونکہ یہ فلسطینی عوام کے غصب شدہ حقوق کے دفاع کی جنگ لڑتے ہیں۔ ان میں  قیدیوں کی دیکھ بھال اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ضمیر‘، بچوں کے دفاع کے لیے بین الاقوامی تحریک – فلسطین الحق فاؤنڈیشن، زرعی کام کی کمیٹیوں کی یونین، فلسطینی خواتین کی کمیٹیوں کی یونین، اور بسان سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ جیسے ادارے شامل ہیں۔

مسلسل جاسوسی

فلسطینی برادری سے لے کر عالمی برادری کے رہنماؤں اور ریاست کے سربراہان تک حال ہی میں فرانسیسی صدر میکرون کے اسپائی ویئر کے استعمال میں قابض ریاست کا مکروہ کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : انسانی حقوق کی تنظیم بتسلیم نے انتظامی قید کی اسرائیلی پالیسی کو ظالمانہ قرار دی

اس کے سلوگن کے تحت معلومات تک رسائی اور معلومات کی دوڑ میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے مستقل قابض دشمن کا نقطہ نظر تو یہ کیسے ہوگا جب کہ یہ شکار اور جلاد کے درمیان قانونی جنگ میں جاسوسی کر رہا ہے؟!

فلسطینی قانونی امور کے ماہر صلاح عبدالعاطی نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں سے پردہ اٹھانے کے لیے پیگاسس پروگرام کا استعمال قانونی اور انسانی ہمدردی کے شعبے میں کارکنوں کے خلاف بار بار کی جانے والی خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل کا مقصد ان اداروں کے بارے میں کسی بھی معلومات کا پتہ لگانا ہے جنہیں اس نے حال ہی میں دہشت گرد قرار دیا ہے تاکہ ان کے کام کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ کو روکا جا سکے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے متعلق ان کے انسانی حقوق کے کام میں خلل ڈالا جا سکے۔

فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرنے والے بین الاقوامی کمیشن (حشد) نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسرائیلی کمپنی NSO کے تیار کردہ ’’پیگاسس‘‘ سپائی ویئر پروگرام کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے، جو فلسطینی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جاسوسی کے اسرائیلی حربے کا شکار ہونے والے صرف فلسطینی انسانی حقوق کے ادارے ہی نہیں بلکہ ان اداروں سے وابستہ ملازمین بھی شامل ہیں۔ جن پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ فلسطینی وزارت خارجہ کےتین ملازمین بھی اس میں شامل ہیں۔

ماہر عبد العاطی نے شہری اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف قابض صیہونی ریاست کے اقدامات کو بین الاقوامی قانون کی نفی ، کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے رہنما خطوط سے متصادم قرار دیا۔

انہوں نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کےلیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے محافظوں کے تحفظ کے لیے فوری مداخلت کریں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ جس میں 10 ممالک کے 17 میڈیا اداروں کے 80 صحافی شامل تھےمیں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’’پیگاسس‘‘ سپائی ویئر کو غیر قانونی نگرانی کے مقاصد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تجزیہ نگار ابراہیم حبیب  کہتے ہیں کہ ’’اسرائیل‘‘ فلسطینیوں کے ساتھ قانونی تصادم کے خطرات سے خوفزدہ ہے اور اسے بین الاقوامی مزاج کی اہمیت کا احساس ہے اگر طاقت کا توازن اس طرح تبدیل ہوتا ہے جس سے اس کے رہنماؤں کو بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی کے لیے بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button