اہم ترین خبریںمقالہ جات

کیا افغانستان داعش کا نیا گڑھ ہوسکتا ہے ؟

افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر داعش کے حملوں میں مزید تیزی آتی ہے تو طالبان ہمسائیہ ممالک کے تعاون سے داعش کیخلاف وسیع کاروائی لانچ کرسکتے ہیں

شیعیت نیوز: شمالی افغانستان میں جوزجان کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد ، صوبے کے درزاب ، خماب اور آقچہ اضلاع میں داعش کی سرگرمیاں شروع ہوئیں ہیں، اور اس دہشتگردگروپ نے ضلع آقچہ میں دو بامرتبہ اپنے جھنڈے بھی نصب کئے تھے لیکن طالبان اس بات کا چرچا نہیں چاہتے لہذا وہ اسے چھپا رہے ہیں ۔

زرائع کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب سے اپنے جھنڈوں کو لگانے کے دو دن بعد طالبان نے گرچہ ان جھنڈوں کا وہاں سے ہٹادیا لیکن ساتھ میں طالبان لوگوں کو خبردار کرتے رہے کہ اس بات کا چرچا نہ کیا جائے اور کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع دی جائے بصورت دیگر انہیں سزا دی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ طالبان جوزجان میں داعش گروپ کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ لوگ روزانہ اس صوبے کے اضلاع میں داعش کی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچاتے رہتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: عزاداروں کے خلاف انتظامیہ کےمتعصبانہ اقدامات کے خلاف پندرہ رکنی شیعہ رہبر کمیٹی تشکیل

واضح رہے کہ اس سے قبل روس نےبھی شمالی افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں بات کی تھی اور اسے ہمسائیہ ممالک کے لئے خطرناک قرار دیا تھا جوزان کے علاوہ مزار شریف میں بھی داعش کی سرگرمیوں کی اطلاعات موجود ہیں کہ جہاں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے اب تک طالبان اور داعش کے درمیان چار جھڑپیں ہو چکی ہیں

افغانستان میں مقامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کو 2014 سے افغانستان میں ایک سنجیدہ خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا جبکہ اس سے پہلے پچھلی حکومتوں کے دوران داعش کی افغانستان میں موجودگی کے موضوع کے ساتھ کئی مسائل جڑے ہوئےتھے۔

کچھ افغان سمجھتے تھے کہ یہ ایک ہتھکنڈہ ہے جسے سرکاری انٹیلی جنس حکومت مخالفت گروہوں کو دبانے کے لئے استعمال کررہی ہے دوسری جانب داعش دہشتگردوں کے حملوں کا نشانہ بھی زیادہ وہ اہداف تھے جو کسی نہ کسی طور پر غنی سرکار شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی داعش نے زیادہ ترحکومت مخالف سماجی و سیاسی گروہوں جیسے ،روشن خیالی کی تحریک یا جنبش روشنائی ، جنبش رستاخیز یا مختلف قسم کے کورس کرانے والے این جی اوز اور بعض مساجد و شیعہ اہداف ۔

اس وقت امریکیوں کی جانب سے بھی داعش کی افغانستان میں موجودگی کی اطلاعات کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کہ امریکی افغانستان میں اپنی موجودگی کو مزید طول دینے کے لئے بہانے تلاش رہے ہیں جبکہ خطے کے بعض ممالک خاص کر روس کی جانب سے داعش کی موجودگی کے خطرات لیکر خدشات کے اظہار کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ روسی امریکہ پر الزام لگانا چاہتے کہ وہ داعش کو شام وعراق سے افغانستان میں لارہا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: وہ عناصر جو عزاداری کے دشمن ہیں وہی میلاد النبی پر طرح طرح کے اعتراضات کھڑے کر کے مسلمانوں کو گروہ در گروہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں، علامہ احمد اقبال رضوی

افغانستان میں موجود ان مختلف خیالات کے باوجود یہ ایک حقیقت اب مزید کھل کر سامنے آگئی ہے کہ داعش نہ صرف افغانستان میں وموجود ہے بلکہ وہ اپنی طاقت کو بھی مظاہرہ کررہی ہے ۔

تو کیا افغانستان داعش کا نیا گڑھ بن رہا ہے ؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا ہوگی کہ داعش ،القاعدہ،لشکر جھنگوی ،جیسے گروہوں کی نظریاتی جڑیں ایک ہیں اور طالبان خواہ وہ افغان طالبان ہوں یا پھر پاکستانی طالبان ،کے ساتھ نظریاتی سرحدیں ضرور ملتی ہیں ۔

دوسرے الفاظ میں یہ ایک قسم قدرتی و نیچرل اتحادی ہیں چاہے ان میں روش اور طریقہ یا مفادات کے سبب جس قدر بھی اختلاف ایجاد ہوجائے لیکن آخر کار یہ ایک ہی سوچ سے ربط رکھتے ہیں موجودہ افغان طالبان کہ جن کو طالبان 2.5بھی کہاجاتا ہے ،کا کہنا ہے کہ وہ داعش کی سوچ بالکل بھی نہیں رکھتے اور ماضی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں ۔

دوسری جانب اس ناقابل تردید حقیقت کا کیا کیا جائے کہ ماضی سے اب تک طالبان اور داعش کے درمیان نہ صرف مخاصمت چلی آرہی ہے بلکہ ایک دوسرے پر حملے بھی کرتے رہے ،طالبان داعش کو مجرم کہتے ہیں جبکہ داعش طالبان پر جدیدیت پسندی اور شریعت سے باہر ہونے کا الزام لگاکر ان پر حملے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔

بات دراصل یہ ہےماضی میں طالبان اور داعش القاعدہ میں تعاون رہا ہے اور اب بھی طالبان کی صفوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو داعش کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہاں تک طالبان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی صفوں میں داعش کی کوئی اعلی قیادت موجود ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملہ، امریکہ نے داعش دہشت گردوں کو فعال کردیا

اب لوٹ آتے ہیں اپر بیان کردہ سوال کی جانب کہ کیا افغانستان داعش کا نیا گڑھ بن سکتا ہے ؟
’’طالبان کا کہنا ہے کہ داعش ان کے لئے ایک خطرہ نہیں ہیں بلکہ ایک دردسر ہیں ‘‘

اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ طالبان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ داعش ان کی امارات اسلامیہ کے لئے اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں بن سکتے جو افغانستان کے جغرافیہ پر قبضہ کرلیں اور عوامی پذایرائی حاصل کرکے ان سے امارات اسلامیہ چھین کر دولت اسلامیہ افغانستان تشکیل دیں اور طالبان کی اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کیونکہ افغانستان کی سرزمین داعش کے لئے زرخیز نہیں ہے یہاں تکفیریت نے ابھی جڑیں نہیں گاڑیں اور نہ ہی یہاں ایسے تکفیری گروہ وجود میں آئیں ہیں جو جتھوں کی شکل میں تکفیری نعرے لگاتے پھرتے ہوں یا پھر ان کے پاس مساجد و مدارس کی ایک چین ہو ،یاسیاسی اثرورسوخ ،جیسا کہ ہمسائیہ ملک پاکستان میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جہاں دارالحکومت اسلام آباد کی لال مسجد سے لیکر کراچی تک تکفیری نہ صرف متحرک ہیں بلکہ سیاسی اور بیورکریٹک اثر ورسوخ بھی رکھتے ہیں اور نفرت کے بیوپار میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں ۔

یہاں بعض مبصرین کا خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر افغانستان میں طالبان ناکام ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں داعش جیسے گروپ مزید مضبوط ہوسکتے ہیں ۔حالیہ قندوز اور قندھار میں اہل تشیع کی دو مساجد میں ایک ہفتے کے وقفے سے ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کے بعد کہ جس میں دوسو سے زیادہ افراد شہید ہوئے ،طالبان کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری ہمیں قبول نہ کرے اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرے تو داعش مزید مضبوط ہوسکتی ہے ۔

ادھر دوسری جانب افغان بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ داعش افغانستان میں امریکی نیم واپسی کے لئے گروند بناسکتی ہے لیکن افغانستان میں تجزیہ کار عبد الشکور سالنگی کا کہنا ہے کہ ’’ طالبان کا موازنہ آئی ایس آئی ایس سے افغانستان کی ایک حقیقت کے طور پر نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ طالبان کے نظریات کی عوامی ایک حلقے میں پذیرائی موجود ہے اور ان کے بے شمار پیروکار ہیں اوریہ بھی سچائی ہے کہ طالبان نے کسی طرح امریکہ کو شکست دی ہے۔ لیکن دہشت گرد گروہ (آئی ایس آئی ایس) ایک عارضی اور غیر مستقل منصوبہ ہے ، افغانستان کے لوگ داعش سوچ کو قبول نہیں کرتے جو سلفیت اور وہابیت سے برآمد ہوتی ہے دوسری جانب طالبان افغانستان کے بیشتر حصے کو کنٹرول کررہے ہیں اور یہاں تک کہ دیہاتوں اور قصبوں میں داعش کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ پچھلی حکومت کا کنٹرول صرف صوبوں اور صوبائی دارالحکومتوں اور چند شہروں تک محدود تھا ‘‘

یہ بھی پڑھیں: افغان شیعہ نمازیوں پر دہشت گردانہ حملوں کے خلاف عالمی رد عمل

ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد داعش کی جانب سے حملوں میں تیزی کے پچھے ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہ ظاہر کررہی ہے کہ طالبان کی امارات اسلامیہ کو وہ اپنی دولت اسلامیہ نہیں سمجھتی اسی طرح داعش کی کوشش ہے کہ افغانستان میں مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان اختلافات اور تفرقہ ایجاد ہو جیسا کہ تکفیری تمام گروہوں کے بنیادی مقاصد بلکہ اسٹراٹیجی میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے جیسا کہ پاکستان میں موجود تکفیری گروہ بنیادی طور پر مختلف مسالک کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے کا کوئی بہانہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ بہانہ تراشنے کی ہمیشہ کوشش میں رہتے ہیں ۔

افغانستان کے بارے میں مقامی ماہرین کا خیال ہے کہ داعش کا نفرت انگیز اور تفرقہ باز پروجیکٹ افغانستان میں اس لئے کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ افغان عوام پہلے سے داعش کے بارے میں یہ جانتی ہے کہ یہ ایک بیرونی ایجنڈا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان کے تکفیریوں کے طرح وسیع عوامی جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے ۔

افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر داعش کے حملوں میں مزید تیزی آتی ہے تو طالبان ہمسائیہ ممالک کے تعاون سے داعش کیخلاف وسیع کاروائی لانچ کرسکتے ہیں ،ویسے بھی روس ،تاجکستان ،ازبکستان ایران پہلے سے داعش کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کرچکے ہیں ۔

اب دیکھنا یہ ہے طالبان اپنی امارت اسلامیہ کو بچانے کے لئے داعش کیخلاف کاروائی ایک جامع کاروائی کرتے ہیں یا پھر وہ انہیں نیچرل اتحادی ، برے وقتوں کے لئے ایک زخیرہ اور تزوایراتی گہرائی کے طور پر برداشت کرتے ہیں۔

تجزیہ وتحلیل : حسین عابد

متعلقہ مضامین

Back to top button