مشرق وسطی

فلسطینی قیدیوں کا فرار مزاحمت کی فتح ہے / قابضین کا خاتمہ قریب ہے، تجزیہ کار عبد الباری

شیعیت نیوز: عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار عبد الباری عطوان نے اپنے تازہ ترین کالم میں اس بات پر زور دیا کہ صہیونی حکومت کی ہائی سکیورٹی والی جیل سے فلسطینی قیدیوں کا فرار ، اسرائیل کے لیے شکست اور مہلک دھچکا ہونے کے علاوہ ، مزاحمت کی بالا دستی اور فتح کو ثابت کرتا ہے۔

معروف عرب تجزیہ کار اور رائے الیوم اخبار کے ایڈیٹر اور تجزیہ کار عبد الباری عطوان نے اپنے تازہ ترین کالم میں فلسطینی قیدیوں کے اسرائیل کی سب سے محفوظ جیل سے فرار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ ایک بار پھر ناکام ہوگئے اوراس کے بعد آپ مسلسل ناکامی سے ناکامی کی طرف جائیں گے لہذا جان لیں کہ آپ کے قبضے کا اختتام بہت قریب ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ یہاں آپ کا دشمن (وہ دشمن جو مسلسل فتوحات حاصل کرتا ہے) فلسطینی مزاحمت اور اس کے بہادر مرد ہیں جو اپنے دشمن کے خلاف جدوجہد کے نت نئے طریقے اپناتےرہتے ہیں ، وہ مختلف قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں نیزسکیورٹی اور فوجی امور میں بھی مہارت رکھتے ہیں،انھیں پوری دنیا میں فخر ہے کہ صیہونی قابض دشمن کے مقابلے میں انھیں بالا دستی حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ایرانی سرحدوں پر بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے، جنرل اسماعیل قاآنی

یہاں فلسطینی قیدیوں کے تخلیقی اور بے مثال انداز میں ان کے سیل میں کھودی گئی سرنگ کے ذریعے کامیاب فرار تاریخ میں درج ہے اور شاید ایک دن یہ بہادرانہ عمل عالمی معیار کی فلم بن جائے گا، اس اقدام کے راز اور اس کی تفصیلات ابھی تک نامعلوم ہیں جبکہ صیہونی سکیورٹی سروسز جنہیں بڑا دھچکا پہنچا ہے ، حقائق کو چھپا رہی ہیں،تاہم اب تک حاصل ہونے والی مختصر معلومات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہم ایک بہادر انہ اقدام کا سامنا کر رہے ہیں جس نے بہت ساتھ سوالات کو جنم دیتا ہے۔

سب سے واضح سوال یہ ہے کہ 4 ماہ سے زائد عرصے میں یہ سرنگ کیسے بنائی گئی اور اسے قابض حکومت کی انتہائی حساس اور محفوظ جیل میں خفیہ رکھا گیا، سرنگ کی کھدائی کی مٹی کہاں گئی اور یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ محافظوں کی نظروں سے پوشیدہ رہی ہو؟ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ وہ ٹیلی فون کس نے فراہم کیا جو جیل کے سیل سے باہر بات چیت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تاکہ بہادر قیدیوں کو ان کی انتظار کرنے کے لیے سرنگ کےآخری سرے کے قریب پہنچا جا سکے؟۔

کیا یہ فرار کرنے والے ہیرو سرحد پار کر کے اردن اور شام میں داخل ہو سکیں گے یا مقبوضہ علاقوں کے اندر اسرائیلی اہداف کے خلاف شہادت طلبانہ کاروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ان تمام اور دیگر سوالات کا جواب آنے والے دنوں اور ہفتوں میں دیا جائے گا ، اس وقت ہم صرف اتناکہہ سکتے ہیں کہ اس بہادرانہ اقدام نے قابض حکومت اور صہیونی منصوبے کو عمومی طور پر ایک مہلک دھچکا لگایا اور قابض حکومت کے قیام کے بعد یہ ایک بہت بڑی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ناکامی نیز صیہونیوں کی بدترین شکست ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button