اہم ترین خبریںمشرق وسطیمقبوضہ فلسطین

فلسطینی ریاست کے قیام کے وعدے ایک نیا فریب، اصل مقصد مزاحمت کا خاتمہ ہے: معروف عرب مبصر

فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کے قتل عام سے توجہ ہٹانے کی عالمی سازش بے نقاب

شیعیت نیوز : معروف فلسطینی تجزیہ کار اور "رأی الیوم” کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے فلسطین کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے دعوے دراصل پرانے فریبوں کو ایک نئے انداز میں زندہ کرنا ہے۔

عطوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب اور فرانس کی قیادت میں ہونے والی اس کانفرنس کا حوالہ دیا جس میں دو ریاستی حل پر بات کی گئی۔ ان کے مطابق یہ بحثیں محض اس لیے تیز کی گئی ہیں تاکہ غزہ پر جاری قتل عام اور قحطی کو پس منظر میں دھکیلا جائے اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے صہیونی مطالبے کو جواز فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کے نام نہاد حامی مزاحمت کو رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اصل مجرم یعنی صہیونی حکومت کو نظرانداز کر رہے ہیں، جو غزہ کو کھلی قبرستان میں بدل چکی ہے، جہاں اب تک 60 ہزار سے زائد بے گناہ شہری شہید، ڈیڑھ لاکھ زخمی اور شہر کے بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔

عطوان کی نظر میں فلسطینی ریاست کے حالیہ منصوبے کے پیچھے چھپے چار حقائق پوشیدہ ہیں:

  1. برطانیہ کے وزیر اعظم کی مشروط حمایت

    کریر اسٹارمر نے کہا ہے کہ ستمبر میں برطانیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، بشرطیکہ اسرائیل غزہ میں حالات بہتر بنائے۔ یعنی یہ ایک سیاسی سودے بازی ہے، حق کا اعتراف نہیں۔

  2. تسلیم میں تاخیر کا مقصد

    تسلیم کا فیصلہ ستمبر تک مؤخر کرنا، اسرائیل کو ایک ماہ سے زائد وقت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ غزہ میں اپنے اہداف کو مکمل کر سکے۔

  3. مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی شرط

    نیویارک کانفرنس میں شریک اکثر ممالک نے فلسطینی ریاست کے قیام کو حماس اور جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے سے مشروط کیا، حتیٰ کہ مصر، سعودی عرب اور قطر جیسے عرب ممالک نے بھی اس شرط پر اتفاق کیا۔

  4. امریکی ویٹو اور عرب اتحادیوں کا کردار

    امریکی صدر ٹرمپ فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہیں اور اسے حماس کے لیے انعام سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی قرارداد بھی آئے تو امریکی ویٹو پہلے سے تیار ہے اور اس کے سب سے پہلے اطاعت گزار عرب اتحادی ہی ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ جنگ میں شدید اختلافات، آرمی چیف ایال زامیر مستعفی ہو سکتے ہیں

عطوان نے خبردار کیا کہ دو ریاستی حل کے حامی مغربی و عرب ممالک نے نہ کبھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دیا اور نہ ہی اس پر پابندیاں لگانے کی جرات کی۔ بلکہ برطانیہ جیسے ممالک اب بھی اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں جس سے وہ غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔

انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے 22 ماہ سے قاہرہ اور دوحہ میں جاری مذاکرات کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ نہ جنگ رکی، نہ غذا و دوا پہنچی۔

عطوان نے سوال اٹھایا کہ کیا فلسطینی ریاست ویران شدہ غزہ میں قائم ہو گی یا مغربی کنارے میں جو اب صہیونی کنسٹ کی قانونی تحویل میں ہے؟

عبدالباری عطوان مزید لکھتے ہیں کہ ہمیں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے چند اہم اور نمایاں نکات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے:

  • اعلان بالفور جو برطانیہ نے جاری کیا اور جس میں یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر ایک قومی وطن قائم کرنے کا حق دیا گیا، جبکہ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقوق اور مفادات کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔

  • اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 181، جو 1947 میں منظور ہوئی اور جس میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی۔

  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242، جو 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد جاری کی گئی اور اس میں فلسطینی ریاست کے قیام اور مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلا کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

  • اوسلو معاہدے جس پر ستمبر 1993 میں وائٹ ہاؤس کے لان میں فلسطین، اسرائیل اور امریکہ کے حکام نے دستخط کیے۔ اس معاہدے میں واضح طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس کے متون میں ریاست فلسطین کے قیام کی جانب اشارہ موجود تھا۔

  • بین الاقوامی چار فریقی کمیٹی جو 2002 میں اقوام متحدہ، روس، امریکہ اور یورپی یونین پر مشتمل قائم کی گئی، نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک روڈمیپ تیار کیا۔ اس کا مقصد فلسطینی انتفاضہ کو ختم کرنا اور اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کو فروغ دینا تھا، مگر آج اس روڈمیپ کا کہیں ذکر نہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 142 ممالک، جن میں فرانس بھی شامل تھا، فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں؟ تو پھر آج یہ نئی باتیں کس لیے ہو رہی ہیں؟

کیا اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی حمایت سے ڈاکٹر سلام فیاض کو 2007 میں فلسطینی خود مختار اتھارٹی کا وزیر اعظم تسلیم نہیں کیا تاکہ وہ ریاست فلسطین کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تیاری کرے؟ تو پھر وہ سب کچھ کہاں گئے؟

عطوان لکھتے ہیں کہ یہ سارا عالمی شور و غوغا، جو خاص طور پر کچھ یورپی ممالک کی قیادت میں منظم طور پر ہو رہا ہے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے وعدے کے گرد گھوم رہا ہے، درحقیقت صہیونی حکومت کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ مہم اس بڑھتی ہوئی عالمی نفرت کی لہر کو کمزور کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے جو دنیا بھر خاص طور پر مغربی ممالک میں صہیونی حکومت کے خلاف شدت اختیار کر چکی ہے۔

یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی، جو خود صہیونی حکومت کی آلہ کار بن چکی ہے اور ملت فلسطین سے بدترین تاریخی خیانت کر چکی ہے، آج اسی خیالی ریاست کو تسلیم کروانے کی سب سے زیادہ مشتاق و سرگرم حمایتی بنی ہوئی ہے۔

عبدالباری عطوان مزید لکھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی یا تو سمجھنے سے قاصر ہے یا پھر بھول چکی ہے کہ وہ گذشتہ 32 برسوں سے اوسلو معاہدے کو نافذ کروانے کے لیے صہیونی حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے، جب کہ درحقیقت اسرائیل نہ صرف مغربی کنارے پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اب تک 850,000 صہیونی آبادکاروں کو وہاں لا کر بسا چکا ہے۔

تحریر کے اختتام پر عطوان نے لکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کو زبانی اور کاغذی سطح پر تسلیم کیا جانا ایک بہت بڑا فریب ہے، اور اس فریب کی حمایت وہی لوگ کر رہے ہیں جو صہیونیوں کو پیسہ، اسلحہ اور جنگی سازوسامان مہیا کر رہے ہیں تاکہ وہ فلسطینی عوام کا قتل عام جاری رکھ سکیں۔ ہم ایسے سرابوں پر یقین نہیں رکھتے، اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہماری قوم دسویں بار بھی اسی سوراخ سے ڈس لی جائے، بغیر یہ سمجھے کہ اس کے ساتھ پہلے کیا ہو چکا ہے۔

عبدالباری عطوان آخر میں فلسطینی شاعر اور مفکر معین بسیسو کا حوالہ دیتے ہیں، جو غزہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں:

اگر تم بولتے ہو، تو مر جاتے ہو۔ اگر تم خاموش رہتے ہو، تب بھی مر جاتے ہو۔ تو بہتر ہے کہ بولو… اور مر جاؤ!

متعلقہ مضامین

Back to top button