اہم ترین خبریںدنیا

افغان شیعہ علماء کونسل نے طالبان کی مشروط حمایت کا اعلان کردیا

شیعیت نیوز: افغان شیعہ علماء کونسل نے کہا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے کی شرط پر حکومت کی تشکیل میں طالبان کے ساتھ تعاون کریں گے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی شیعہ علماء کونسل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے افغانستان میں بسنے والے تمام لوگوں، مسلک اور مذاہب کیلئے قابل قبول وسیع البنیاد اسلامی حکومت کی تشکیل پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے ہمارے مطالبات مان لئے تو حکومت کی تشکیل میں ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔

کابل میں افغان شیعہ علماء کونسل کےاجلاس کے اختتامی بیانیے میں جسے افغانستان کے سابق وزیر برائے مہاجرین سید حسین عالمی بلخی نے پڑھا کہا گیا ہے کہ افغانستان کی ابتراور عوام کی ناگفتہ بہ صورتحال کو ٹھیک کرنے اورافغانستان کی ترقی و پیشرفت کیلئے تمام اقوام ، مذاہب اور اہل افراد پر مشتمل قومی اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل ضروری ہے ۔

افغان شیعہ علماء کونسل نے ملک میں آزادی اظہار رائے اور اسی طرح مذھبی آزادی خاص طور سے شیعہ مسلمانوں کیلئےمذھبی آزادی، عورتوں کے حقوق کا تحفظ ، اور اسلامی شریعت کے مطابق عورتوں اور بچوں کے حقوق اور تعلیم کے حصول کیلئے بہتر حالات اور ماحول کی فراہمی پر تاکید کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : صیہونی حکومت کے خلاف جامع مزاحمت پر غور کررہے ہیں، ابو مرزوق

دوسری جانب پنج شیر کے پہاڑی علاقے میں طالبان اور قومی مزاحمتی اتحاد کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے اور دونوں جانب سے کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔

طالبان نے دعوی کیا ہے کہ وادی پنج شیر کا محاصرہ کر لیا ہے تاہم قومی مزاحمتی اتحاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور وہ پنج شیر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان پنج شیر کو طاقت کے بجائے مذاکرات سے فتح کرنا چاہتے ہیں۔

9 دن قبل طالبان کے کابل سمیت ملک بھر میں کنٹرول کے بعد قومی مزاحمتی اتحاد نے طالبان کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کی ہے۔

طالبان کے خلاف کھڑے ہونے والے اس قومی مزاحمتی اتحاد میں ملیشیا کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ سابق حکومتی فوجی بھی شامل ہیں اور انہوں نے طالبان کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر مشین گنوں کے جال، مارٹر اور ریت کی بوریوں سے حفاظتی چوکیاں بنا لی ہیں۔

درہ پنجشیر میں اکثر تاجک باشندے موجود ہیں جہاں پہاڑوں سے گھرے اس علاقے میں قدرتی طور پر مقامی مزاحمتی فورسز کا دفاع انتہائی مضبوط ہو جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button