دنیا

جرمنی میں اسلامو فوبیا کے رجحان میں اضافہ

شیعیت نیوز: جائزہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں اسلامو فوبیا کے رجحان میں اضافے کے باعث بہت سے مسلم باشندے بچپن ہی سے تعصب کا سامنا کرتے ہیں۔

جرمنی میں حکمراں جماعت سے وابستہ سینیئر سیاست دان کے ساتھ آن لائن اجلاس کے بعد اسلامو فوبیا کی نئی مہم شروع ہو گئی ہے، جس کے باعث مسلمان طلبہ میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہیں انتہا پسندوں کی جانب سے نفرت انگیز واقعات یا اپنی جان کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جماعت کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین کے سرکردہ سیاست دان نوربرٹ رؤٹگن کے ساتھ اسکالر شپس کے معاملے پر جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ نے ایک آن لائن اجلاس کا اہتمام کیا، جس میں انہوں نے گفتگو کے لیے ماحولیاتی پالیسی، کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین کی جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے بعد مستقبل اور کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے انتظامات جیسے موضوعات کا انتخاب کیا۔

واضح رہے کہ ابن سینا اسکالر شپ آرگنائزیشن، جرمنی میں مسلم دنیا کے طلبہ اور محققین کو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوکر تحقیق کی سہولت فراہم کرتی ہے، تاہم تنظیم سے وابستہ طلبہ کو گفتگو کے نتیجے میں نفرت اور اشتعال انگیز مہم کی توقع نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں : مہلت ختم ہورہی ہے، ایران کا یورپی ٹرائیکا کو انتباہ

مقامی میڈیا کے مطابق نوربرٹ رؤتگن نے سوشل میڈیا پر میٹنگ کی تصاویر پوسٹ کیں، جس میں تقریباً 20 طالبات اسکارف کے ساتھ نظر آئیں۔ تصاویر شائع ہوتے ہی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے گروہوں کی جانب سے نفرت انگیز تبصروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کے بعد طالبات نے رؤٹگن پروگرام کے شرکا کے نام غیر واضح رکھنے کی درخواست کی، جس پر سیاست دان نے ایسی پوسٹیں حذف کردیں، جس سے شرکاء کی شناخت ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے افراد کے لیے ہیڈ اسکارف کسی بھی مسلمان خاتون کو نا اہل قرار دینے کے لیے کافی بہانہ ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے اپنی تعلیم اور کیریئر پر کتنی محنت کی، آپ کو ایک مسلمان عورت کی حیثیت سے کم درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ آپ محض ایک خاتون ہیں، وہ بھی اسکارف کے ساتھ۔

جرمنی میں مختلف تنظیموں سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکارف پہننے والی خواتین کو تعصب اور نفرت کا خاص طور سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے مسلم باشندے بچپن ہی سے اس تعصب کا سامنا کرتے ہیں اور کئی جائزہ رپورٹوں میں اس بات کا انکشاف کیا جا چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button