اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم منانا یا اس دن کربلائے معلی میں انکی تربت مقدسہ پر سلام یا زیارت کے لیے حاضری کا آغاز کب ہوا؟ یہ وہ سوال ہے جو چہلم یا اربعین حسینی کے حوالے سے ہر ایک کے ذہن میں پیدا ہونا فطری ہے۔ اس لیے اس کی تفصیلات کے لیے یہ مقالہ پیش خدمت ہے۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نواسے امام حسین علیہ السلام

یاد رہے کہ یزید بن معاویہ حاکم وقت کے حکم سے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نواسے امام حسین علیہ السلام اور انکے سگے بھائیوں، دیگر قریبی رشتے داروں اور اصحاب کے ساتھ سال 61ہجری قمری میں دس محرم یوم عاشورا کو قتل کردیا گیا تھا۔ (ریفرنس: الکامل فی التاریخ از ابن اثیر)۔

اردو میں چالیسواں، فارسی میں چہلم اور عربی میں اربعین

عام و خاص مسلمانوں کی معاشرتی لغت میں چہلم یا اربعین کی اصطلاح سے مرادکسی کی رحلت کے چالیسویں دن کے موقع پر مرحوم کی یاد میں اجتماع کو اردو میں چالیسواں، فارسی میں چہلم اور عربی میں اربعین کہتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام و دیگر شہدائے کربلا عرب ملک عراق میں دفن ہیں، اس لیے اربعین حسینی کی اصطلاح پوری دنیا میں زیادہ مشہور ہوچکی ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری

مستند تاریخی منابع کے مطابق جو پہلے شخص امام حسین ع کی قبر مقدس پر اربعین یعنی 20صفر کو حاضر ہوئے، وہ رسول اکرم ﷺ کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ تھے۔ یہ بزرگ صحابی ؓرسول ﷺ ایک مشہور و معروف تابعی عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی کے ہمراہ کربلا میں زیارت قبر مقدس امام حسین ع حاضر ہوئے تھے۔

Reference: بشارۃ المصطفیٰ از علامہ عماد الدین طبری ، بحار الانوار از ملا باقر مجلسی و مقتل الحسین للخوازمی

غالب اکثریت آج بھی ایسا ہی کرتی ہے۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ایک عام مسلمان چالیسویں کی مناسبت سے ایک عام مرحوم مسلمان کے لیے بھی ایصال ثواب اور نذر نیاز کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یعنی قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی۔ اور ساتھ ہی مرحوم کی قبر پر بھی جایا جاتا ہے۔ عام روایت ہے کہ قبرستان میں قبور پر بھی مرحومین کے سویم، دسویں، چہلم اور برسی پر دعا ئیں اور قرآن خوانی کی جاتیں ہیں۔ شاید غیر مقلد وہابی ایسا نہ کرتے ہوں یا ممکن ہے انکے زیر اثر دیوبندی اسلاف کی اس روایت کو فراموش کرچکے ہوں لیکن غالب اکثریت آج بھی ایسا ہی کرتی ہے۔

یہ آل ؑ محمد ﷺہیں

امام حسن ؑو حسین ؑ کو رسول اکرم ﷺ نے اپنا فرزند قرار دیا۔ اولاد رسول ﷺ انہی دو نواسوں کی اولاد ہی کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں نواسوں کو خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔ چونکہ یہ آل ؑ محمد ﷺہیں اور ان پر درود و سلام کے بغیر کسی مسلمان کی نماز قبول نہیں ہوتی اس لیے یہ مقدس ہستیاں رسول اکرم ﷺ کے ہر امتی کے لیے یکساں محترم اور مقدس ہیں۔

چہلم یا اربعین حسینی  کسی ایک مسلک یا فرقے کا معاملہ نہیں

جب ایسا ہے تو چہلم یا اربعین حسینی کو بھی کسی ایک مسلک یا فرقے کا معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب ہم ایک عام مسلمان کے غم میں شرکت کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں تو خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے فرزند کے غم میں شرکت سے فرار کے بہانے نہیں ڈھونڈنا چاہئیں۔

دنیا میں ایک روایت قائدین اور پیشواؤں کی برسی

دنیا میں ایک روایت ہے کہ قائدین اور پیشواؤں کی برسی ہر سال منائی جاتی ہے۔ جوانان جنت کے سردار کی یاد بھی اسی طرح ہر سال منالی جائے تو اس پر بلاوجہ کے اعتراضات یا اس کی مخالفت کرنے سے عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ آل ؑمحمد ﷺ سے بغض و کینہ کے سبب امام حسین ع کی یاد منانے سے مخالفت کرتے ہیں۔

سال کے پورے 365دن

یہ بھی دنیا بھر میں روایت ہے کہ شمسی کیلنڈر کے سال کے پورے 365دن ہی کسی نہ کسی وجہ سے کہیں نہ کہیں اجتماعات، ریلیاں یا مظاہرے ہوتے ہی ہوتے ہیں۔ اور بڑے شہروں میں مصروف شاہراہوں اور سڑکوں پر بھی ایسا اکثر و بیشتر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر سال کے 365دنوں میں سے چند روز یعنی دس محرم، بیس صفر، اکیس رمضان، یوم القدس یا دو چار اور دن اگر ان مقدس ہستیوں کے چاہنے والے بھی سڑکوں یا شاہراہوں پر چندگھنٹوں کے لیے جمع ہوجائیں تو بالکل اسی طرح برداشت کرنا چاہیے جیسا پورے سال کرتے ہیں۔

بہت سے مولوی حضرات بھی ریلیاں نکالتے رہتے ہیں

اسلام میں دوالگ معیار کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ خود بھی بہت سے مولوی حضرات بھی ریلیاں، جلسے جلوس، دھرنے کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے دس محرم یا بیس صفر کے جلوسوں پر اعتراض کا مطلب بھی سوائے اسکے کچھ نہیں کہ اولاد رسول ﷺ سے بغض و کینہ ہے، ورنہ ٹریفک جام کا مسئلہ بھی پورے سال کا ہے۔

انکا اعتراض تو جشن عید میلاد النبی ﷺ منانے پر بھی ہے

بعض احباب کہہ سکتے ہیں کہ ناقدین کو زیارت عاشورا پراعتراض ہے۔ تو جواباً مودبانہ عرض ہے کہ دیوبندی اور اہل حدیث وہابی مسلک کے ان مولویوں کا اعتراض تو الصلواۃ و السلام علیک یا رسول للہ ﷺ کہنے پر بھی ہے۔ انکا اعتراض تو جشن عید میلاد النبی ﷺ منانے پر بھی ہے۔

پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے آئینی حقوق پر حملہ
 توسل پر بھی انکو اعتراض

رسول اللہ ﷺ اور آل رسول ﷺ اور دیگر بزرگان دین یا اولیائے کرام سے توسل پر بھی انکو اعتراض ہے۔ اہل سنت کو یہ ٹولہ قبر کا پجاری کہتا ہے، قبر بجو کہتا ہے۔ تو اعتراض تو نہ معلوم کتنی باتوں پر ہے اور کس کس پر ہے۔ تو یہ نفسیاتی مریض اپنا علاج کروائیں، فساد نہ پھیلائیں۔

فقہاء کا اختلاف ایک حقیقت ہے

شرعی لحاظ سے بہت سے مسائل میں فقہاء کا اختلاف ایک حقیقت ہے۔ اس لیے اختلافی مسائل میں دیگر پر اپنی رائے مسلط کرنے سے گریز کریں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ جو انکی نظر میں درست نہیں، اس میں شرکت نہ کریں۔ جیسا کہ یہ لوگ آج تک بارہ ربیع الاول کے جشن عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں شرکت نہیں کرتے۔

انما الاعمال بالنیات

البتہ دیوبندی بزرگان جنہیں یوم عاشورا، چہلم اور بارہ ربیع الاول کے جلوسوں پر اعتراض ہے، وہ کم سے کم اپنے ہم مسلک اورنگزیب فاروقی ٹولے کو تو اس کام سے روکیں جو انکی نظر میں بدعت اور حرام ہے۔ وہ تو یکم محرم اور اٹھارہ ذی الحج کو جلوس نکالتے ہیں، انما الاعمال بالنیات! جس کے مسلک میں جلوس بدعت ہے، جائز نہیں ہے، اسکے باوجود جلوس نکالتا ہے تو اسکی نیت سوائے فتنہ و فساد کے اور کیا ہے؟

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات ہورہی تھی اربعین حسینی یا چہلم شہدائے کربلا کی جو ہر سال 20صفر کو منایا جاتا ہے۔ آئمہ اہلبیت ؑ میں سے گیارہویں امام حسن عسکری ؑ نے اربعین کی زیارت کو مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ جبکہ اربعین یعنی 20صفر کو کربلا میں قبر امام حسین ع پر حاضری اور وہاں سلام و زیارت حاضری کی روایت حضرت جابرؓ بن عبداللہ انصاری کی قائم کردہ ہے۔

صحابی رسول ﷺ کی روایت

تو جو لوگ کہتے ہیں نبی ﷺ کا ہر صحابی جنتی جنتی، ان پر بھی تو لازم ہے کہ وہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ کی روایت پر عمل کرنے والوں کی تکفیر، توہین اور مخالفت کرنے سے باز رہیں۔ بلکہ انہیں تو صحابی رسول ﷺ کی روایت کے احترام میں خود اربعین حسینی کے جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ ہرانسان کو اس سال 20صفر کو اربعین حسینی کے جلوسوں اور اجتماعات میں بھرپور شرکت کرکے حسینی ہونے کا اظہار کرنا چاہیے۔

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم

اربعین حسینی کے حوالے سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ امام علی ؑبن الحسین ؑ زین العابدین (امام سجاد ؑ)، بی سیدہ زینب کبری ؑاور دیگر اسیران کی رہائی کے بعد مدینہ واپسی براستہ کربلا ہوئی تھی۔ اوران سے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی چہلم کربلا میں منایا تھا۔ البتہ اس پر علماء و مورخین کے مابین اختلاف ہے کہ ان بابرکت ہستیوں نے پہلی مرتبہ قبر امام حسین علیہ السلام پربعد از رہائی کب حاضری دی تھی۔

اگر کسی حسینی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ

سید الشہداء امام حسین ؑعالی مقام کے چاہنے والوں پر احمقانہ اعتراضات کرنے والے کسی دن آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے پوچھیں کہ امام حسین علیہ کی شہادت کے وقت امت محمدی کہاں جھک ماررہی تھی؟ بلکہ وہ حضرت عثمان کے قتل کے حوالے سے تاریخ پڑھ لیں۔ کم سے کم 1800اور زیادہ سے زیادہ تین ہزار افراد جن کا تعلق صرف مصر، بصرہ اور کوفہ سے تھا، انہوں نے اتنی بڑی مسلمان ریاست کے حاکم کے گھر کا محاصرہ کرکے انہیں مدینہ منورہ میں قتل کردیا، اگر کسی حسینی نے پلٹ کر کہہ دیا کہ خود ماردیا، خود مروادیا تو آپ کے دل پر کیا گذرے گی۔

امام حسین علیہ السلام ودیگر شہدائے کربلا کا چہلم

ریاست پاکستان، ادارے اور حکام یاد رکھیں کہ اس ملک پاکستان کا بانی اورپاکستانیوں کا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ہے، اس لیے آئین کی حکمرانی قائم کریں۔ کالعدم دہشت گرد تکفیری ٹولے کے مولویوں یا انکے فرنٹ مین مولویوں سے پوچھ کر اگر فیصلے کرنا ہیں تو استعفیٰ دے کر انکو جوائن کرلیں۔

دہشت گردوں  کے اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں

ان دہشت گردوں یا انکے فرنٹ مین کے اعتراض کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے نہ ہی اخلاقی۔ بلکہ شرعی حیثیت بھی نہیں ہے۔ کھلے منافق ہیں۔ یزیدکی محبت دلوں میں رکھ کر پاکستان کے حسینی عوام سے اپنی حقیقت چھپاتے ہیں۔ ہمت ہے تو کہہ کر دکھائیں کہ یزید ابن معاویہ کے پیروکار ہیں۔ پھر پاکستان کے عوام خود ہی انکوانکے منطقی انجام سے دوچار کردیں گے۔

حسینیت زندہ باد، پاکستان پایندہ باد۔

پاکستان کے حسینی عوام کا بھی یہ آئینی و قانونی حق ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں۔ نفرت انگیز ملک دشمن بیانیہ کو پھیلانے والے فتنہ گر فسادی مولویوں کو جلسے جلوس کرکے نفرت پھیلانے کی کھلی اجازت اور پرامن حسینی جلوسوں پر پابندی، مخالفت، اعتراضات، یہ منافقت، تعصب، امتیازی رویہ مردہ باد۔ حسینیت زندہ باد، پاکستان پایندہ باد۔

محمد ابوذر مہدی شیعیت نیوز اسپیشل

 

متعلقہ مضامین

Back to top button