اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

پنجاب کاتحفظ بنیاداسلام قانون آئین پاکستان سے متصادم

پنجاب اسمبلی کے اس قانون سے لگ یہ رہا ہے کہ اب معاویہ اعظم، حافظ عمار یاسر، مودی، نیتن یاہو، ٹرمپ، آل سعود و آل خلیفہ و آل نھیان سب بھائی بھائی بن گئے ہیں۔

پنجاب کاتحفظ بنیاداسلام قانون آئین پاکستان سے متصادم

پنجاب کاتحفظ بنیاداسلام قانون آئین پاکستان سے متصادم.. صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے تحفظ بنیاد اسلام قانون منظو ر کرلیا، بظاہر یہ خبر زبردست لگتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ایشوز پر نت نئے قوانین بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ پنجا ب کی صوبائی مقننہ ایسے قوانین کس کے کہنے پر بنارہی ہے۔ اس کا جواب شاید علامہ اقبال کے کلام میں مل جائے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے نظریاتی جد اور قومی شاعر علامہ اقبال کا اپنا تعلق بھی صوبہ پنجاب سے ہی تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے پنجابی مسلمان کے عنوان سے بڑے کام کے 6مصرعے تحریر کئے تھے۔ انکے مطابق پنجابی مسلمان کی تعریف یہ تھی:

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اسکی طبعیت
کرلے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہتے جلد
تحقیق کی بازی میں تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

زایونزم، ہندوتوا، قادیانیت اور ناصبیت

اگر مرزا غلام احمد قادیانی سے لے کر حق نواز جھنگوی اور مولوی اشرف آصف جلالی تک جائزہ لیاس جائے تو علامہ اقبال کے اشعار ایسی شخصیات اور انکے مریدوں اور حامیوں پر آج بھی صادق نظر آتے ہیں۔ البتہ قادیانیت اور ناصبیت میں بعض معاملات میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر دونوں ہی کا ہدف دین اسلام کو اندر سے نقصان پہنچانا رہا ہے۔

پاکستانی مسلمانوں کو سنی شیعہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی بجائے مشترکات پر اتحاد کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ اس طرح تقسیم کرنے کی سازش۔

پنجاب اسمبلی کے اس قانون سے لگ یہ رہا ہے کہ اب معاویہ اعظم، حافظ عمار یاسر، مودی، نیتن یاہو، ٹرمپ، آل سعود و آل خلیفہ و آل نھیان سب بھائی بھائی بن گئے ہیں۔

یعنی جو اسرائیلی ادارے شین بیتھ ایمی ایالون نے چارلی روز کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل امریکا مل کر سنی کوالیشن بنائیں گے، اس کی ایک کڑی پنجاب کا یہ قانون بھی ہے۔

آرٹیکل 227کا متن

ان تمام فتنوں کو کچلنے کے لیے پاکستان کے آئین میں سارے مسلمان مسالک کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اور پاکستان کے آئین کی شق 227اور228کو اسلامی شقیں کہاجاتا ہے۔ یہ حل شق 227میں موجود ہے۔ شق یعنی آرٹیکل 227کا متن ملاحظہ فرمائیے۔

Article: 227 Provisions relating to the Holy Quran and Sunnah
227. Provisions relating to the Holy Quran and Sunnah.-(1) All existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this Part referred to as the Injunctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such injunctions.

1[Explanation.

-In the application of this clause to the personal law of any Muslim sect, the expression“Quran and Sunnah”shall mean the Quran and Sunnah as interpreted by that sect.]

(2) Effect shall be given to the provisions of clause (1) only in the manner provided in this Part.

(3) Nothing in this Part shall affect the personal laws of non-Muslim citizens or their status as citizens.

Footnotes:

1. Section 2 of the Constitution (Third Amendment) Order, 1980, P.O. No. 14 of 1980, added the said Explanation to Art. 227, (w.e.f. September 18, 1980).

کیا اس واقعہ کو بیان کرنا توہین اور گستاخی ہے!؟۔

حق نواز جھنگوی تا لدھیانوی، ڈھلوں، فاروقی، معاویہ اعظم، مسرور جھنگوی سے لے کر اشرف آصف جلالی تک جتنے بھی مولویوں کو اگر شیعہ مسلمانوں کے نظریات سے متعلق اختلافات ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کی سنی تاریخی کتب میں ایسے بہت سے واقعات آج بھی محفوظ ہیں جو صحابہ سے متعلق ہیں۔ بعض واقعات رسول اکرم ص کی اس دنیائے فانی کی حیات مبارکہ میں اوربہت سے واقعا ت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اس مادی دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد رونما ہوئے۔

قلم و دوات منگوانے کا حکم

مثال کے طور پر قلم و دوات منگوانے کا حکم جو رسول اکرم ص نے دیا مگر ایک صحابی نے جواب میں کیاکہا یہ صحیح مسلم میں صحابی کے نام کے ساتھ درج ہے۔ سنی صحاح ستہ کتب میں سب سے معتبر صحیح بخاری اور صحیح مسلم، یہ دو کتابیں ہیں۔ حتیٰ کہ ان دونوں کتب کو وہابی اہل حدیث غیر مقلد بھی معتبر مانتے ہیں۔

کیا اس واقعہ کو بیان کرنا توہین اور گستاخی ہے!؟۔۔ اگر بیان کرنا گستاخی یا توہین ہے تو جس نے رسول اکرم ص کی نافرمانی کی، وہ کس زمرے میں ہے!؟ یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے سنی بھائی ان مولویوں سے ایک دفعہ پوچھ لیں کہ معیار اللہ اور رسول کا ھکم ہے یا کچھ اور!؟

بہت واضح نظر آرہا ہے کہ جناح و اقبال کے پاکستان کو اسرائیل نواز امریکا و بھارت کے یارآل سعود و آل نھیان کا غلام بنایا جارہا ہے۔ اور اس میں مسلکی کارڈ استعمال کرکے پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے لئے یہ قانون لایا گیا ہے۔

بزرگ شخصیات کو مرتد قراردینے کی روایت

چلیں ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں رحلت کے بعد جب حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو مسلمانوں کے بہت سے گروہوں نے انہیں زکات کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔ یہ جس دور کا تذکرہ ہے یہ صحابہ کرام ہی کا دور تھا نہ کہ تابعین یا تبع تابعین کا۔ اس ضمن میں سیرت ابن ہشام نامی کتاب میں تفصیل موجود ہے۔ اور سنی تاریخ کے مطابق اس دور میں بہت سے مسلمان مرتد ہوچکے تھے۔ تو بزرگ شخصیات کو مرتد قراردینے کی روایت وہاں سے انکی اپنی قائم کردہ ہے۔

صحابہ، امہات المومنین اور اہلبیت ؑ کے اختلافات تاریخی حقیقت ہیں۔ برصغیرمیں اردوزبان میں سیرت النبی کے عنوان سے علامہ شبلی نعمانی و علامہ سلیمان ندوی کی ایک تفصیلی کتاب موجود ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں سات جلدوں میں دستیاب ہے۔ اسکی بنیاد پرانی تاریخی کتب ہیں۔

اختلاف خود صحابہ کے وقت میں پیدا ہوچکا تھا

اس سیرت النبی جلد دوم میں متروکات کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ اصل یہ ہے کہ یہ اختلاف خود صحابہ کے وقت میں پیدا ہوچکا تھا۔ حضرت عباس (آپ ص کے چچا)، حضرت فاطمہ (صاحبزادی) اور اکثر ازواج مطھرات مدعی تھیں کہ اس جائداد کو بطور وراثت تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ محض ایک جھلک ہے تاریخی حقیقت کی۔ کیا کسی مولوی نے رسول اکرم ص کے چچا حضرت عباس اور دیگر ازواج مطھرات جنہوں نے میراث میں سے حصہ مانگا، ان پر کبھی بھی کوئی بھی اعتراض کیا۔ کیوں نہیں کہتے یہ بات کہ خلیفہ وقت سے اختلاف کرنے والوں میں خود ا مہات المومنین ؓ بھی شامل تھیں۔

اس لئے معاملہ واضح ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نافرمانوں اور اہل بیت ع سے جنگ کرنے والوں کو شیعہ مسلمان اپنا پیشوا نہیں مانتے۔

شبلی نعمانی و سلیمان ندوی صاحبان

اسی طرح ایک اور جھلک دیکھ لیں تاریخ کی جو شبلی نعمانی و سلیمان ندوی صاحبان کی کتاب سیرت النبی ص کی جلد دوم میں ”ازواج مطھرات کے ساتھ معاشرت“ کے عنوان کے تحت ذیلی عنوان حضرت زینب ؓمیں رسول اکرم ﷺ کی پھوپھوی زاد کا تذکرہ ہے۔ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ”آپ ص مہاجرین پر کچھ مال تقسیم کررہے تھے، حضرت زینب ؓ درمیان میں بول اٹھیں، حضرت عمرنے ڈانٹا۔ آپ ص نے فرمایا ان سے درگذرکرو، یہ اداہ ہیں (یعنی خاشع و متضرع ہیں)۔ نہایت قانع اور فیاض طبع تھیں۔ خود اپنے دست و بازو سے معاش پیدا کیا کرتی تھیں اور اسکو راہ خدا میں لٹادیتی تھیں۔“

عام مسلمان پر توہین اور گستاخی کا جھوٹا الزام

یہاں ام المومنین اور رسول اکرم ص کے معاملات میں ایک صحابی نے درمیان میں مداخلت کرنا چاہی، رسول اکرم ص نے انکو منع کیا کہ ایسا نہ کریں اورزوجہ مطھرہ کے خشوع و خضوع کی گواہی دی۔ یعنی صحابی کی نظر میں ایک ام المومنین کا وہ عمل ایسا تھا کہ انکی نظر میں اعتراض بنتا تھا۔ یہ ایک واقعہ بیک وقت اس دور سے متعلق کئی حقائق کوسمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ کیا میرے جیسا ایک عام مسلمان یہ کہے کہ حضرت عمر نے بھی ام المومنین کی شان میں گستاخی کی!؟۔ اگر یہ عمل گستاخی نہیں تو، آج کے دور کے کسی عام مسلمان پر کیوں توہین اور گستاخی کا جھوٹا الزام لگادیا جاتا ہے اور نہ صرف الزام بلکہ اسے توہین رسالت کے قا نون کے تحت مجرم بنادیا جاتا ہے۔

”ازواج مطھرات کے ساتھ معاشرت“ اسی عنوان کے تحت امہات المومنین ؓ کے آپس کے تعلقات سے متعلق واقعات بھی ایک عام مسلمان کو اس دور کے تلخ حقائق کی طرف رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔

”اللؤلؤوالمرجان فی ما اتفق علیہ الشیخان“

اسی طرح ایک واقعہ سنی صحاح ستہ کتب میں سب سے معتبر صحیح بخاری سے نقل کرکے محمد فواد عبدالباقی نے ”اللؤلؤوالمرجان فی ما اتفق علیہ الشیخان“ میں نقل کی ہے۔ یہ کتاب سنیوں میں اسی طرح معتبر مانی جاتی ہے جیسے شیعہ مسلمانوں کے مابین وسائل الشیعہ نامی کتاب۔ اس میں حدیث اسامہ بن زید کے عنوان سے تحریر ہے کہ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ص نے ہمیں حرقہ کی جانب روانہ کیا اور ہم نے صبح دم ان پر حملہ کرکے انہیں شکست دے دی اور میں اور ایک اور انصاری جوان اس قبیلے کے ایک شخص کے پیچھے لگ گئے۔ پھر جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کلمہ لاالہ الااللہ پڑھ لیا، یہ سنتے ہی انصاری نے تو اپنا ہاتھ روک لیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کردیا۔ اسکے بعد جب ہم واپس آئے اور آنحضرت ﷺ کو میرے اس فعل کی اطلاع پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اسامہ تم نے لاالہ الااللہ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا۔ آپ ص نے اس فقرے کا اس قدر تکرار فرمایا کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی: کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور آپکی ناراضگی کا ہدف نہ بنتا۔
(حوالہ: باب 39۔۔۔کافر اگر زبان سے لاالہ الااللہ ادا کردے تو اسکا قتل حرام ہوجاتاہے۔۔ذیلی عنوان حدیث نمبر 62۔اللولواولمرجان۔۔۔ناشر الفیصل۔۔غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔۔اشاعت اکتوبر 2005۔۔ محمد فیصل نے زاہد بشیر پرنٹرز سے چھپوا کر شایع کی)۔

مسلمانوں کی تقسیم کی ایک منظم سازش

یہ چند واقعات نقل کرنے کا مقصد صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ پاکستان میں صحابہ کرام یا کسی بھی عنوان سے مسلمانوں کی تقسیم کی ایک منظم سازش پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ کافر کافر فلاں کافر،،جو نہ مانے وہ بھی کافر۔۔۔ یہ نعرہ لگاکرشیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے جھنگوی لدھیانوی ٹولے کا نظریہ اور اب اشرف آصف جلالی کا ناصبی نظریہ، یہ سب، حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نظریہ اسلام سے سوفیصد متصادم ہیں۔ وہ انبیائے خدا کا سردا ر جو عالمین کے لئے رحمت ہے جب وہ ایک صحابی کے غلط عمل سے ناراض ہوا، وہ ناصبی لدھیانوی سے کیسے راضی ہوسکتا ہے!؟

پنجاب کاتحفظ بنیاداسلام قانون آئین پاکستان سے متصادم

پاکستان کے آئین کی شق 227 قرآن وسنت سے متعلق ہر مسلک کی اپنی مسلکی تشریح کو قبول کرتی ہے۔ جب قرآن و سنت کی تشریح پر یہ واضح آئینی حق موجود ہے تو پنجاب اسمبلی سمیت کسی کو بھی اس سے متصادم قانون سازی کرنے کا حق نہیں۔ شیعہ مسلمان توحید، عدل، نبوت، امامت و قیامت پر ایمان و اعتقاد کامل رکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ امامت کو مانتے ہی نہیں تو وہ اپنی تشریح شیعہ مسلمانوں پر کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ اہل بیت نبوۃ کے لئے علیہ السلام کے قائل ہیں یعنی ان پر سلامتی ہو۔

ایسا کہنے یا لکھنے پر پابندی لگانے والے بتائیں، اس قانون کے گن گانے والے بتائیں کہ اگر کوئی بھی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتا ہے تو آپکا نام نہاد تحفظ بنیاد اسلام قانون اس سے متعلق کیا کہتا ہے۔ آپکا قانون حضرت محمد مصطفی ﷺ کو نہ ماننے والوں سے متعلق کیا کہتا ہے۔

سنی علمائے کرام نےکہا آسمانی کتب میں تحریف

سنی علمائے کرام نے تو پوری زندگی یہی کہا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آسمانی کتب میں تحریف کیں۔ صوبہ پنجاب کا نیا قانون اس مسئلے پرکیا کہتا ہے!؟۔ آسان الفاظ میں یہ کہ تحفظ بنیاد اسلام کے نام پر ہندو، عیسائی، یہودی سبکو انکے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی دی جارہی ہے۔ اور اسی کے ساتھ غیر شیعہ ہر طبقے کو پوری آزادی دے دی گئی کہ وہ بھی اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذاریں۔ لیکن شیعہ مسلمانوں کو انکے عقیدے کے مطابق زندگی گذارنے کا حق سلب کرلیا گیا ہے۔

معاملہ واضح ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نافرمانوں اور اہل بیت ع سے جنگ کرنے والوں کو شیعہ مسلمان اپنا پیشوا نہیں مانتے۔

شیعہ مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ

پنجاب کا تحفظ بنیاد اسلام قانون براہ راست پاکستان کے شہریوں کو مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی ایک سازش ہے۔ عدالت عالیہ لاہور اور ملک کی عدالت عظمیٰ کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کے شیعہ مسلمان شہری بعد از ختم نبوت مولا امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تا بہ امام مہدی عج بارہ معصوم اماموں کو امت کا پیشوا، رہنما، ہادی مانتے ہیں۔ اور پنجاب کا یہ نیا قانون شیعوں کو انکے اس حق سے محروم کرنے پر مبنی ہے۔ اس لئے آئین کی شق 227 سے بھی متصادم ہے۔ اور شیعہ مسلمانوں کے بنیادی حقوق، شہری آزادی اور مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔

چونکہ شیعہ مسلمان اطیعواللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم کی آیت پرعمل کررہے ہیں اور یہ قانون اسی عقیدے پر حملہ ہے۔

 

 

پنجاب کاتحفظ بنیاداسلام قانون آئین پاکستان سے متصادم

 محمد عمار  برائے شیعت نیوز اسپیشل

علامہ حسن ترابی شہید ایک ناقابل فراموش کردار
پاکستان میں دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ کون!؟
Blast shakes Parachinar leaving many injured as per initial reports

متعلقہ مضامین

Back to top button