مقالہ جات

روز مکافات || مظہربرلاس

یمنی آج بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں، لبنان پر میزائل داغے گئے، مسلمان دنیا کے حکمرانوں کی اکثریت چپ رہی

شیعت نیوز: ویسے تو مسلمان کئی صدیوں سے پس رہے ہیں مگر پچھلے 75برسوں سے مہذب دنیا اقوامِ متحدہ کی چھتری لے کر مسلمانوں پر ستم کر رہی ہے۔ چالیس برسوں سے اس شدت کو بڑھا دیا گیا ہے، ان چالیس برسوں میں مسلمانوں کو مولی گاجر سمجھ کر کاٹا گیا، جہاں کسی کا دل چاہا، اس نے مسلمانوں کو خوب مارا۔ اسلام دشمن قوتوں نے یورپ کو بھی نہ بخشا، وہاں بسنے والے مسلمان بھی مہذب دنیا کے لئے قبول نہیں تھے، اسی لئے تو بوسنیا میں موت اور بے غیرتی کا کھیل کھیلا گیا، بوسنیا کی داستانیں سن کر آج بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے، دل لرز جاتا ہے، چیچنیا میں بھی ظلم کی داستانیں رقم کی گئیں۔ مسلمان چپ رہے، عراق اور افغانستان پر بم برسائے گئے، یہاں کارپٹ بمباری ہوتی رہی، وسائل لوٹ لئے گئے۔ عراقی تیل پر اب بھی کوئی قابض ہے۔ یمن کو چاروں طرف سے گھیر کر بمباری کی گئی، ان پر ادویات کے دروازے بند کر دیے گئے، دنیا کے طاقتور ممالک نے زندگی تنگ کی مگر مسلمان چپ رہے، بعض نے تو یمن کے خلاف جنگ میں حصہ بھی لیا مگر یہ ساری تدبیریں کارگر ثابت نہ ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ماہ صیام میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان کے نفوس کی طہارت و پاکیزگی کا بہترین موقع دیتا ہے، علامہ راجہ ناصرعباس

یمنی آج بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں، لبنان پر میزائل داغے گئے، مسلمان دنیا کے حکمرانوں کی اکثریت چپ رہی، فلسطین کے معصوم بچوں کی آنکھوں میں زندگی کی آس کو موت سے نہلا دیا گیا، فلسطینی عورتوں کی پکار کسی مسلمان حکمران کی سماعتوں کو چھوئے بغیر گزر گئی، یہ پکار پتا نہیں کیوں نہ سنائی دے سکی۔ اس قتل عام پر بھی مسلمان حکمران چپ رہے۔ عالمی ضمیر بھی سویا رہا، یہاں بھی جسموں کو کاٹا گیا، شامی بچے بلکتے رہے۔ ان پر گولے برستے رہے، شام میں رہنے والے بہت سےلوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ خون میں لتھڑے ہوئے، بھوک سے بلکتے ہوئے شامی بچے دنیا کے لئے عجیب و غریب پیغام چھوڑ گئے کہ وہ اپنے خدا کو اوپر جا کر سب کچھ بتا دیں گے۔ یہ جملے بھی مسلمان حکمرانوں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔

مصر کو کھوکھلا کیا گیا، لیبیا کو تباہ و برباد کیا گیا، مسلمان ملکوں کی پوری قطار کھنڈرات کا منظر بن گئی، پھر بھی مسلمان حکمران چپ رہے، عالمی ضمیر سویا رہا، وہ تو شاید تھا ہی ظلم کا ہمنوا۔ مشرق وسطیٰ کے خطے میں جو مسلمان ملک سلامت ہیں، ان کے حکمرانوں کا عجیب چلن ہے۔ وہ اپنی حکمرانی بچانے کے لئے جگا ٹیکس دیتے ہیں، وہ مسلمان دنیا کے وسائل دے کر اپنی حکمرانی تو بچا لیتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کا اسلامی دنیا کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی عوام کو فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ کسی صورت منظور نہیں،علامہ مقصودڈومکی

برما میں مسلمانوں کے جسموں کے ٹکڑے ہوئے مگر مسلمان حکمران چپ رہے، وہاں مسلمانوں کو اس طرح کاٹا اور جلایا گیا کہ شاید ایسا جانوروں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ کشمیر میں سو سال سے زائد عرصہ ہوگیا، ظلم کا راج ہے، پچھلے ستر برسوں میں تو بھارت نے وہاں نفرت کاشت کی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں بے شمار کشمیری نوجوانوں کو موت کی وادی کا رستہ دکھایا گیا، عورتوں اور بچوں پر ظلم ہوئے۔ پچھلے آٹھ ماہ سے تو پورے کشمیر کو قید خانہ بنایا ہوا ہے، اس قید خانے میں ظلم بولتا ہے، اس ظلم پر بھی مسلمان ملکوں کے غلام حکمران چپ رہے، مسلمان حکمرانوں کی اس خاموشی کو کمزوری سمجھ کر مودی نے چند ماہ پہلے انڈیا میں نیا شہریت قانون متعارف کروا ڈالا۔ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے، اس پر بھی مسلمان دنیا کے غلام حکمران خاموش رہے جبکہ ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم مسلمان تڑپتے رہے، سرور ارمان کا یہ شعر شاید انہی کے لئے تھا کہ ؎

جانے کیوں وقت بھی، آنکھیں بھی، قلم بھی، لب بھی
آج خاموش ہیں گزرے ہوئے سالوں کی طرح

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سےرمضان المبارک میں جزوی طورپرکاروبارکی اجازت

خواتین و حضرات! دنیا ظلم کی علامت بن چکی تھی، ستم گر ہر طرف سے ستم کر رہے تھے۔ ایسے میں مظلوموں کی آہوں نے درِ فطرت پر دستک دی۔ پھر ہر چیز پر قدرت رکھنے والے نے ایام کو پھیر دیا، لوگوں کے درمیان ایام ایسے پھرے کہ کل تک زیادہ مرنے والوں کی فہرست میں شام، عراق، یمن، لیبیا اور افغانستان تھے، آج اس فہرست میں امریکا، اٹلی، اسپین، فرانس اور برطانیہ کا نام آتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برسوں پہلے شعر کہا تھا، شاید وہ پورا ہو رہا ہے، شعر یہ تھا کہ:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!

متعلقہ مضامین

Back to top button