مقالہ جات

موت کے بعد جسد کو لٹکانا!

جسٹس وقار سیٹھ کے اس اضافی نوٹ نے اذہانِ عامہ کو خاصی تشویش میں مبتلاء کیا اور عوام میں اس حوالے سے غم و غصہ دیکھنے میں آیا ہے

شیعت نیوز: گزشتہ روز خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تو جسٹس وقار سیٹھ کے اضافی نوٹ پر کافی اعتراض ہوا۔ کسی نے انہیں انتقامی جذبے کے تحت لکھی لائینیں قرار دیا تو کسی نے غیر انسانی اور غیر اخلاقی اور غیر آئینی نوٹ پر جسٹس وقار سیٹھ کی مذمت کی۔ یاد رہے آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق کسی بھی مجرم کو مدون قانون سے فراتر کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔ جس قانون (The high treason punishment act1973) کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا گیا تھا اس کی دفعہ 2 میں دو ہی سزائیں مذکور ہیں؛ سزائے موت یا عمر قید۔

اکثریتی رائے سے ہونے والے فیصلے میں خصوصی عدالت کے دو ججز نے سزائے موت پر اتفاق جبکہ ایک جج نے بریت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ سزائے موت پر متفق دو ججز میں سے ایک جج وقار سیٹھ نے اضافی نوٹ میں یہ تحریر کیا کہ:

We direct the Law Enforcement Agencies to strive their level best to apprehend the fugitive/convict and to ensure that the punishment is inflicted as per law and if found dead, his corpse be dragged to the D-Chowk, Islamabad, Pakistan and be hanged for 3 days.”

خلاصہ: قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور قانون کے مطابق سزا پر عملدرآمد کروائیں اور اگر مجرم مردہ پایا جائے تو اس کے جنازے کو گھسیٹتے ہوئے ڈی چوک اسلام آباد لایا اور تین دن کے لیے لٹکا دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک جج کے تاثرات غیر مہذب اور انسانی اقدار کے منافی ہیں، علامہ راجہ ناصرعباس

جسٹس وقار سیٹھ کے اس اضافی نوٹ نے اذہانِ عامہ کو خاصی تشویش میں مبتلاء کیا اور عوام میں اس حوالے سے غم و غصہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اضافی نوٹ ہونے کیوجہ سے گو قانونی لحاظ سے اس نوٹ کی اتنی اہمیت نہیں ہے یعنی جسٹس وقار کی اضافی رائے سزائے موت کے اصل فیصلے کو متاثر نہیں کرے گی لیکن اس نوٹ سے عوامی احساسات متاثر ہونے کیوجہ سے یہ نوٹ خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

نہیں معلوم جسٹس وقار سیٹھ کے مدنظر کونسا قانونی یا شرعی اصول تھا جس کے پیشِ نظر انہوں نے لاش کو لٹکانے کی اضافی رائے دی ہے؟۔ جبکہ ماہرینِ قانون، علماء اور دانشوروں کی اکثریت موت کے بعد لاش لٹکائے جانے کو خلافِ قانون و خلافِ شرع قرار دے رہے ہیں۔ "حرمت المیت” کے شرعی قاعدے کے تحت اکثریت جسٹس سیٹھ وقار کے اضافی نوٹ سے متفق نظر نہیں آرہی اور اسے لاش کی بے حرمتی قرار دے رہی ہے۔

لیکن محدودے چند احباب موت کے بعد جسد کو لٹکانے میں کسی قباحت کے قائل نہیں ہیں اور اسے لاش کی بے حرمتی نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک قرآنِ مجید میں حرابہ کی حد کے ذیل میں جہاں چار سزاؤں کا ذکر ہوا ہے وہاں "او یصلبوا” سے مراد لاش کو لٹکانا ہے۔ ظاہرِ آیت ایسا کوئی مفہوم بیان نہیں کررہی اور "او یصلبوا” سے لاش کو لٹکایا جانا کیسے مراد لیا گیا ہے اس پر ان احباب کی کوئی دلیل بھی نظر سے نہیں گزری لیکن ایک احتمال ہے کہ ان عزیزوں کے مدنظر بعض فقہاء کی وہ شاذ آراء ہوں جن میں انہوں نے حرابہ کے جرم میں "قُتل و صُلِب” کی رائے اختیار کی ہے۔

شیعہ فقہاء نے حرابہ کے جرم کے ذیل میں ایسی آراء کی نفی کی ہے اور اس حوالے وارد دو یا تین احادیث کو ضعیف گردانا ہے۔ شیعہ فقہا کے نزدیک ظاہرِ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حرابہ کے جرم میں قتل اور سولی پر لٹکانا دو الگ سزائیں ہیں جیسے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں کاٹنا اور نفی بلد (جلاوطنی) الگ سزائیں ہیں۔ جس طرح قتل صرف زندہ کو کیا جاسکتا ہے اسی طرح سولی پر بھی صرف زندہ کو لٹکایا جا سکتا ہے؛ مردہ کو سولی پر لٹکانا درست نہیں ہے۔

آیت اللہ محمد یزدی فرماتے ہیں کہ متعدد صحیح روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حرابہ کی سزا جاری کرتے ہوئے سولی پر زندہ مجرم کو لٹکایا جائے گا۔ ان کے نزدیک یہ روایات "یُصلب حیاً” پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حوالے سے وہ جمیل بن دراج کی روایت نقل کرتے : ” … قال ذلک الی الامام إن شاء قطع و إن شاء نفی و إن شاء صلب و إن شاء قتل” (وسائل الشیعة، ج 28 ص 308 ) اور فرماتے ہیں کہ اس روایت میں امام (ع) نے حرابہ کی چاروں سزاؤں کو علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور قتل کو آخر میں قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ حاکم اگر چاہے تو سولی پر لٹکا سکتا ہے؛ ان کے بقول یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ قتل کر کے سولی پر لٹکا سکتا ہے۔ آیت اللہ یزدی کہتے ہیں اس روایت سے واضح ہے کہ سولی پر زندہ مجرم کو لٹکایا جائے گا اور یہ قتل سے علیحدہ ایک مستقل سزا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس پیرا 66 انسانی و اسلامی اقدار کےمنافی ہے، علامہ عارف حسین واحدی

آیت اللہ محمد یزدی کہتے ہیں آیت "إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا” سے اگر یہ مراد لی جائے کہ "یقتل و یصلب” تو ایسے میں یقتل سزا ہوگی اور صلب سزا نہیں رہے گی بلکہ یہ صرف عبرت کا ایک ذریعہ کہلائے گا جبکہ آیت "صلب” سولی پر لٹکانے کو علیحدہ ایک سزا قرار دے رہی ہے اور روایات اور فقہاء کی آراء بھی اسی بات پر تاکید کرتی نظر آتی ہیں کہ حرابہ کے جرم میں قتل علیحدہ سزا اور سولی پر لٹکانا الگ سزا ہے اور حیاً یصلب پر سب کا اتفاق ہے کہ حرابہ کی سزا جاری کرتے ہوئے سولی پر صرف اور صرف زندہ شخص کو لٹکایا جاسکتا ہے۔ (درس خارج فقه استاد محمد یزدی، کتاب القضاء، بمقام قم المقدس،۳۰/۰۱/۲۰۱۲)

اسی طرح صاحبِ جواہر شیخ محمد حسن نجفی (رح) جواہر الکلام کی جلد 41 کے صفحہ نمبر 592 پر اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ: "لو مات المحارب قبل استیفاء الحد لم یصلب” یعنی اگر محارب حد جاری ہونے سے پہلے مرجائے تو اسے سولی پر نہیں لٹکایا جائے گا۔

اس حوالے سے آیت اللہ روح اللہ خمینی (رح) نے بھی تحریر الوسیلہ کی جلد 2 کے صفحہ 526 پر حرابہ کی سزا جاری کرتے ہوئے سولی پر لٹکانے کے لیے مجرم کے زندہ ہونے کو شرط قرار دیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ میت کو سولی پر لٹکانے کی رائے کی فقہاء نے نفی کی ہے اور سیرتِ معصومین علیہم السلام میں بھی میت کو سولی پر لٹکانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ موت کے بعد جسد کو لٹکانا روایات سے ثابت ہے نہ آیتِ محاربہ اس کی تائید کرتی ہے۔ لہذا ایسا کوئی عمل مسلمہ اسلامی قاعدے "حرمت المیت” کی خلاف ورزی تصور ہوگا اور موت کے بعد جسد کو سولی پر لٹکانا لاش کی بے حرمتی کہلائے گا۔

جسٹس وقار صاحب کی لاش کو لٹکانے کی اضافی رائے جہاں آئینِ پاکستان کے مسلمہ اصول (Principle Of Legality of punishment) کے خلاف ہے وہیں شرعی لحاظ سے بھی اس امر کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔

تحریر: سید ابن حسن

متعلقہ مضامین

Back to top button