مقالہ جات

نسرین ستودہ کا کیس اور نام نہاد انسانی حقوق کے دعویداروں کا واویلہ

شیعیت نیوز: ایک ایسا کیس جسے بعض ناقابل وثوق بین الاقوامی ذرائع ابلاغ غیر معمولی طور پر اچھال رہے ہیں اور اس کیس کی مرکزی کردار/ملزمہ کو انسانی حقوق کی ہیروئن بنا کر پیش کیا جارہا ہے. بالخصوص پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹویسٹس اس کیس کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے اس کیس کو اچھالا جانا ہے جو ہمیشہ دینی معاشروں کی اقدار کے خلاف اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہتے ہیں.انسانی حقوق کے عنوان سے ان چند سالوں میں اگر کسی کیس کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہونی اور اس کیس کے مرکزی کردار کو انسانی حقوق کا ہیرو قرار دیا جانا چاہیے تو وہ شہید محمد باقر نمر النمر (رح) کا کیس ہے.میری اس تمہید سے قاری میرا مجموعی نکتہ نظر سمجھ گیا ہوگا. اب اس کیس کی کچھ تفصیلات پر ایک نظر ڈالتے ہیں. نسرین ستودہ ایک ایرانی خاتون وکیل ہیں. نسرین اس وقت ذرائع ابلاغ میں مشہور ہوئیں جب اس نے 2009 کے ایرانی صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے فسادات میں شریک ملزمان بالخصوص خواتین ملزمان کی قانونی حمایت کا اعلان کیا. کسی ملزم کی قانونی حمایت قطعاً ایک غلط کام نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی میں ہر نوع مشارکت قابل تحسین ہے۔

 نسرین ستودہ ان کیسز کی پیروی کے دوران قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کافی مشہور اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہوگئی.اسی دوران قانون نافذ کرنے والے ایرانی اداروں کو کچھ ایسے شواہد ملے کہ نسرین بین الاقوامی جاسوس اداروں سے منسلک اور آئین مخالف ایرانی گروہوں کی مالی معاونت کے لیے پل کا کردار ادا کررہی ہے. اور اس کے علاوہ چند دیگر قابل اعتراض اور ملکی قانون میں جرم قرار پانے والے افعال کی مرتکب ہورہی ہے. قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نسرین کو اس الزام میں گرفتار اور ان پر مدعی العموم کی مدعیت میں مقدمہ چلا دیا.اس پہلے مقدمے میں نسرین پر جرم ثابت ہونے کے بعد لوئر کورٹ کی طرف سے 11 سال قید اور 20 سال ممنوع السفر کی سزا سنا دی گئی. ایپلیٹ کورٹ نے نسرین کی سزا 11 سال سے کم کرکے 6 سال کردی اور بین الاقوامی سفر کی ممنوعیت کو 10 سال کم کردیا۔

 نسرین اس کیس میں 3 سال کی سزا کاٹنے کے بعد ایرانی ضابطہ فوجداری کے مطابق مچلکوں پر رہا کردی گئی.دو سال قبل ایران میں معاشی مشکلات و روحانی حکومت کی کارکردگی سے عدم اطمینان کیوجہ سے ایرانی عوام نے پرامن مظاہرے کئیے. بعض عناصر نے ان مظاہروں کو مس یوز کرنا چاہا اور ایران کے آئینی نظام حکومت کے خلاف موومنٹ چلانے کی کوشش کی اس کمپین کا ایک حصہ حجاب مخالف موومنٹ تھی جو چنداں موثر موومنٹ تو نہ بن سکی لیکن اس غیر آئینی اقدام کے پیچھے موجود بعض عناصر کے چہرے بے نقاب ہوگئے جو طبیعی طور پر چند افراد کی گرفتاریوں اور مقدمات پر منتہی ہوا.نسرین ستودہ اس غیر آئینی تحریک کے ملزمان کے لیے دوبارہ میدان میں آئی اور مجازی و حقیقی دنیا میں احتجاج و آئین مخالف گروہوں سے متوسل ہوگئی۔

ایک سال قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دوبارہ نسرین کو گرفتار کرکے اس بار سات مختلف جرایم کے تحت مقدمہ چلا دیا.نسرین ستودہ پر قومی سیکورٹی کے خلاف اقدامات میں مدد فراہم کرنے, آئین مخالف گروہوں کی مالی مدد, جاسوسی, فحاشی و بے حیائی پھیلانے اور اعلی عہدیداروں کی توہین جیسے الزامات لگائے گئے. تمام تر عدالتی تشریفات کے ساتھ ایک سال باقاعدہ مقدمہ چلنے کے بعد چند دن قبل لوئر کورٹ نے نسرین ستودہ کو جرم ثابت ہونے پر 7 سال کی قید کی سزا سنائی ہے البتہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ ستودہ کے شوہر کے فیس بک ذرائع سے مجموعا 33 یا 38 سال قید اور کوڑوں کی سزا کی خبردے رہے ہیں جس کی کسی قابل وثوق ذریعہ سے تصدیق نہیں ہوئی ہے. اور اگر تمام جرائم میں مجموعی طور پر اتنے سال قید کی سزا بنے بھی تو ایرانی ضابطہ فوجداری کے مطابق ایک ہی مجرم پر چند جرایم ثابت ہونے کی صورت میں صرف وہ ایک سزا جاری ہوگی جو ان جرایم میں سے سب سے زیادہ ہوگی.ستودہ کی 7 سالہ قید کی سزا ابھی اپیل ایبل ہے اور ایپلیٹ کورٹ ستودہ کی سزا کو کم و زیاد کرسکتا حتی کالعدم قرار دے سکتا ہے۔

نسرین ستودہ نے اگر ملکی قانون کے مطابق جرم قرار دئیے جانے والے افعال میں سے کوئی جرم انجام دیا اور تمام تر عدالتی تشریفات کی رعایت کے ساتھ فیصلہ ہوا ہے تو نسرین ستودہ اور دیگر مجرمین میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو نسرین کی سزا ناانصافی ہے.لیکن اس بات کا تعین ذرائع ابلاغ کی تڑکا دار خبروں اور لطیفہ نما تجزیوں سے نہیں ہوگا بلکہ ماہرین قانون نسرین ستودہ کی کیس فائل کا ماہرانہ جائزہ لےکر ہی بتا سکتے ہیں ہیں کہ قانونی لحاظ سے اس کیس کی پوزیشن کیا ہے.مغربی معاشروں کے لیے اسلامی معاشروں کا ہر وہ شخص ہیرو اور ہر وہ خاتون ہیروئن ہے جو اسلامی معاشروں کی اقدار سے بغاوت اور زندگی کے بنیادی تصورات کو اسلامی پیراڈائم کے خلاف تشریح کرے. جبکہ بعض اہم تصورات کی مغربی/غیر اسلامی تشریح ناقص اور فساد آور ہے.البتہ بعض چند سطری دانشور اس کیس کی ناقص خبروں کو بنیاد بنا کر علمِ دین, علما, اسلامی نظامِ حکومت اور اسلامی تصورات کے خلاف موجود اپنے ہمیشگی تعصّب کی بھڑاس بھی نکال رہے ہیں جن کی ہدایت کی فقط دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

#نسرین_ستوده
#NasrinSotoudeh

تحریرـ ڈاکٹرابن حسن

 

متعلقہ مضامین

Back to top button