لبنان

18جنوری یوم شہادت جہاد مغنیہ

 جہاد دفاع مقدس و مقاومت اسلامی کا ناقابل فراموش کرادر ایک تئیس سالہ جوان جوکہ اپنی جوانی کا بیشتر حصہ راہ خدا میں بسر کرتا نظر آتا ہے . ایک ایسے عصر میں جبکہ اس کے ہم عمر بیشتر لڑکے لڑکیاں مادی لزتوں میں غرق دیکھائی دیتے ہیں اور یہ جوان خلاف روایت خود کو ان پر غلیظ راہوں سے نہ صرف دور رکھتا نظر آتا ہے بلکہ راہ خدا میں مکمل طور پر خود کو مستحکم رکھا ہوا سیرات علی اکبر ہے چلتا نظر آتا ہے در حالانکہ بابا شہید ہوچکے تھے پھر بھی بابا کی شہادت بھی اس جری جوان کے پائے استقلال میں ذرا لغزش نہ لائی بلکہ قربانی کا جذبہ پیدا کرنے میں مؤثر ترین کردار ادا کیا بلکل اسی طرح جیسا کہ سید مقاومت حسن نصر اللہ نے اس جملے میں فرمایا کہ ” جب ہم میں سے کوئی شہید ہوجاتا ہے تو ہمارا رشتہ کربلا والوں کے ساتھ اور زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے ۔چنانچہ باپ کی شہادت کے موقع پر بھی یہ جوان حضرت علی اکبر کا وہ تاریخ ساز جملہ دہراتا نظر آتا ہے کہ اے بابا جان جب ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا کہ ہم موت ہے گیرے یا موت ہم پے آن گیرے۔ ایمان کی پختگی کا اندازہ شہید کے ان جملوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہید کہتے ہیں کہ اے والد گرامی! تیرے خون کی قسم تیرے جہاد تیری شہامت تیری شجاعت کی قسم تو زندہ ہے اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتا ہے٫ راہ خمینی پر کامل ایمان شہید کی زندگی کا ایک نصب العین تھا تبھی تو وہ اپنے ہر خطاب میں خمینی کبیر کی راہ پر چلنے کی تاکید کرتے نظر آتے تھے اور شوق شہادت کی تو کوئی حد ہی نہ تھی بلکل اکبر و قاسم طرح٫ وہی شعار دہراتا تھا یہ شہید

چنانچہ وہ وقت آن پہنچا اور 18جنوری 2015میں دفاع حرم زینب کبری کے سلسلے میں جہاد اسلامی کے دوران گولان کی پہاڑیوں میں راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے کل کائنات کی پست ترین مخلوق قابض صیہونیوں کے ہیلی کاپٹر سے بمباری کے نتیجے میں جہاد و ان کے مزید تین ساتھیوں نے جام شہادت نوش فرمائی اور یہ عشاق اپنے معشوق حقیقی سے جا ملے
میں ذاتی طور پر بھی اس شہید سے بہت مانوس ہوں بے پناہ رشک کرتا ہوں واللہ ۔یہ شہید آج کے ہر جوان کے لیے ایک عملی نمونے کی حیثیت رکھتا ہے خاص کار کی غفلتوں میں ڈوبے جوان خود کو دیکھے اور اس بلند روح شہید کو دیکھیں اور ذرا ہ سوچیں کہ آخر وہ کون سی شے تھی جو اس شہید کو ہر طرح کی مادی لزات سے بے نیاز کیے ہوئے تھی کیا اس کے دوست٫ ماں ‘ بہن٫ بھائی نہیں تھے؟ رشتہ دار نہیں تھے ؟سب کچھ تھا پھر کیا وجہ تھی کہ یہ شہید اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے راہ خدا میں جہاد کے لیے سیرات اکبر ہے چلنے کے لیے راہ خدا میں جان نشاور کرنے کے لیے نکلا میری نظر میں ان سب سوالات کا جواب محض ایک لفظ میں۔ ہے اور وہ ہے "عشق ” اے کاش کہ ہم بھی اس راہ کے ایک راہی ہوتے اے کاش کہ ہم بھی جہاد کی طرح خمینی کبیر کا ایک حقیقی بسیجی ہوتت اور اے کاش ۔۔۔۔۔
مگر صد افسوس کہ ہم مادی لزتوں میں غرق رہے اور جو منزل عشق کے راہی تھے وہ منزل مقص ود کو پہنچے وائے ہو ہم دنیا پرستوں پر وائے ہو.

 

متعلقہ مضامین

Back to top button