لبنان

ایران اور حزب اللہ کیطرح اگر سب یمنی عوام کے حق میں بولیں تو حملہ آوروں کو تنہائی کا احساس ہوگا، شیخ نعیم قاسم

شیخ نعیم قاسم 1953ء کو لبنان میں پیدا ہوئے ہیں، یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کر رکھی ہے اور فرانسوی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی حوزی و فقہی تعلیم کو یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ہی مکمل کر لیا تھا۔ وہ لبنان کے سیاسی میدان میں شیعہ آبادی کے اندر اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ وہ معاشرتی اور ثقافتی امور میں بھی بہت زیادہ متحرک ہیں۔ وہ امام موسیٰ صدر کے ہمراہ الامل جماعت اور حزب اللہ بنانے میں پیش پیش تھے۔ وہ 1991ء سے اب تک مسلسل پانچ مرتبہ حزب اللہ کے نائب صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے دسیوں کتابیں مختلف موضوعات پر تصنیف کی ہیں، جن میں معاشرتی حقوق، اسلامی معاشروں میں عورتوں کا مقام، طلبہ اور اساتذہ کے حقوق، اسلام میں معاشرتی حقوق کی اہمیت، قابل ذکر موضوعات ہیں۔ انکی مشہور ہونیوالی کتابوں میں ایک کتاب حزب اللہ لبنان ہے۔ جس میں انہوں نے تاریخ کے آئینہ میں حزب اللہ کا جائزہ لینے کیساتھ ساتھ اسکے مستقبل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب 2002ء میں لکھی گئی تھی اور اب تک اس کتاب کا فارسی، انگریزی، فرانسوی، ترکی، اردو اور انڈونیشی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ یہ کتاب عوام میں بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے۔ اسیطرح انہوں نے ایک کتاب بنام رہبر احیاگر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے سیاسی کردار پر لکھی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب صدر علاقے میں تحریک مقاومت کی واشگاف الفاظ میں حمایت کرنے میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ صہیونی حکومت اسرائیل کو خطے میں ہر طرح کے جرم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، نیز شام میں تکفیری تحریک کا مقابلہ کرنے میں حزب اللہ کی مداخلت کو بیان کرنے سے بھی بالکل نہیں ڈرتے۔ شیخ نعیم قاسم ایک ایسے سیاست دان ہیں، جو سعودی حکومت کے مخالف ہونے اور یمن کی حمایت کرنیکی بنا پر امریکہ کیطرف سے بلیک لسٹ قرار دیئے جا چکے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے معاون دبیر اور نائب صدر جناب شیخ نعیم قاسم نے میڈیا کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے یمن کے مسئلہ پہ انتہائی تفصیل کیساتھ روشنی ڈالی، جو کہ اپنی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال: آپکے خیال میں یمن کا مسئلہ کیا ہے اور آپکی جماعت اس معاملے کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔؟
شیخ نعیم قاسم: یمن کا مسئلہ، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یمن کا مسئلہ ایک پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ اس پیچیدگی کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کوشش کر رہا ہے کہ بعض عربی و مسلمان ممالک کو یمن پر حملہ کے جرم میں اپنے ساتھ شامل کرے۔ یمن پر اس تجاوز و حملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور بعض دوسرے ممالک سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں۔ یمن پر حملہ کرنے میں سعودی عرب کا مقصد اس ملک کی سیاست پر اپنا مکمل قبضہ جمانا تھا، تاکہ یمن کے ذریعے سے خطے میں سعودی مفادات کی حفاظت کی جا سکے۔ بہرحال یمنی عوام نے یہ مقصد پورا نہیں ہونے دیا، اسے قبول نہیں کیا بلکہ اپنے استقلال اور اپنی آزادی کے راستے پر ثابت قدمی دکھائی۔ یمنی عوام اس بات پر تاکید کرتے اور چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سیاسی نظام مستحکم ہو اور سیاسی لوگ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں۔ سعودی عرب کے حملے اور ان پر امریکی حمایت کے باعث ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ یمن کے عوام اپنی اس جائز خواہش پہ عمل نہیں کرسکتے۔

اس جنگ نے یمنی عوام سے ان کے اپنے لئے فیصلہ کرنے کی آزادی کو چھین لیا ہے۔ حزب اللہ کا یقین اس بات پر ہے کہ یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا ناجائز حملہ اصل میں ایک مظلوم اور صلح جو قوم پر حملہ ہے۔ اس جنگ پر سعودی عرب کی جانب سے دلائل بالکل بے بنیاد اور غیر قابل قبول ہیں۔ اس لئے کہ کسی بھی ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی بہانے کے ساتھ دوسرے ملک پر لشکر کشی کرے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کی خاطر اسے ہدایات دے۔ سعودیوں نے کوشش کی ہے کہ مسلمان عربی ممالک کو جنگ یمن میں اپنے ساتھ ملا لے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت و حقوق بشر کا راگ الاپنے والے بڑے ممالک نے مظلوم یمنی عوام پر سعودی امریکی عسکری حملے کی ذرا برابر بھی مذمت نہیں کی۔ ہم حزب اللہ کی جانب سے یہ سمجھتے ہیں کہ یمنی عوام ایک مظلوم قوم ہے اور ان پر حملہ ایک بے رحمانہ اقدام شمار کیا جائے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ یمن پر حملہ کرنے والے کسی فوج سے نہیں لڑ رہے حتٰی کہ یمنی مقاومتی گروہوں کے ساتھ بھی جنگ نہیں کر رہے بلکہ میرے مطابق وہ یمنی عورتوں اور بچوں
جنگ یمن میں عملی طور پر سعودی نہ ہونے کے برابر ہیں، سعودی کوشش کر رہے ہیں کہ اس ظالمانہ جنگ میں دوسروں کو زیادہ شامل کرے، سعودی عرب نے بہت زور لگایا ہے کہ پاکستان اور مصر بھی اس کے ساتھ تعاون کریں لیکن ان دو بڑے مسلمان ملک اس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے، جبکہ امارات، سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
پر بم گرا رہے ہیں اور انہیں خون میں نہلا رہے ہیں۔

حملہ آو شہری آبادی، سکول اور ہسپتالوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں کہ عوامی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یمنی فوج کے خلاف کوئی جنگ نہیں لڑی جا رہی، لہذا جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے، وہ واضح طور پر سعودی و امریکی حملہ آوروں کے جنگی جرائم ہیں۔ اس یک طرفہ عسکری حملہ کو فوجوں کے درمیان جنگ یا کسی سیاسی میدان میں لڑائی بھی شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے حزب اللہ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر صورت یمن کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ اس لئے کہ دنیا بھر میں مظلوم یمنی عوام کے لئے سوائے ایران اور حزب اللہ کے کوئی مددگار نہیں پایا جاتا۔ حملہ آوروں کے خلاف بھی کوئی آواز اٹھتی ہوئی سنائی نہیں دے رہی۔ جس میں یمن کی آزادی اور یمنی عوامی حقوق کو جائز شمار کیا جائے اور سعودی جرائم کی مذمت کی جا رہی ہو۔

یمن میں اب صورتحال ایسی ہے کہ امریکی نگرانی میں چلنے والے ادارے اقوام متحدہ نے بھی مجبور ہو کر یمن میں پھیلنے والی وبائی بیماری، غذائی قلت اور لاکھوں بھوکوں کی موجودگی کا اعلان کر دیا ہے، نیز اس نے حملہ آوروں کی جانب سے نہتے یمنی شہریوں پر ہونے والے جرائم کو بھی قبول کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ حملوں کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ حزب اللہ فریاد بلند کرتی اور دنیا کو متوجہ کرنے کی خاطر تاکید کرتی کہ ایک بڑی تباہی ہونے والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لبنان میں صہیونی دشمن کے خلاف جہاد کرنے میں حزب اللہ ہمیشہ سے تنہا رہی ہے اور سوائے ایران و شام کے، کبھی بھی خطے میں سے کسی ملک یا بین الاقوامی سطح پر کسی ملک نے یا حتی کسی بین الاقوامی تنظیم نے حزب اللہ کی حمایت نہیں کی، لہذا ہم یقین رکھتے ہیں کہ یمنی عوام مظلوم ہیں اور ہمیں اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے، تاکہ وہ تنہائی کا احساس نہ کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ حزب اللہ کی آواز کو سنا جاتا ہے۔ اس کی رائے اور فیصلوں کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button