متفرقہ

مقبوضہ کشمیر، تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا

شیعیت نیوز: تقسیم ہند کے وقت متعصب ہندو لیڈران نے تشکیل پاکستان کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہوئے اسکی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کمزور کرنے کی شروع دن سے ہی ٹھان لی تھی اور اسی بنیاد پر انہوں نے تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ علاقہ قرار دے کر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو درخواست لے کر اقوام متحدہ جا پہنچے۔ اسکے برعکس ریاست حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، مناوادر کا ہندو اکثریتی آبادی کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ الحاق کرالیا گیا مگر کشمیر کو ہندو لیڈر شپ نے محض اس لئے متنازعہ بنایا کہ اسکے راستے سے پاکستان آنیوالے دریائوں کے پانی سے پاکستان کی زرخیز دھرتی سیراب ہونا تھی جس نے اناج اور دوسری فصلیں اگا کر پاکستان کو خوشحالی اور استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنا تھا جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت رکھنے والی ہندو لیڈرشپ کو کسی صورت قبول نہیں تھا۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین سنگین اختلافات اور دشمنی کا باعث بنا اور باوجود اسکے کہ یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو ان کیلئے استصواب کے اہتمام کا کہا‘ بھارت نے اپنی ہی درخواست پر منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا اور کشمیریوں کے استصواب کے حق سے منحرف ہو کر اپنے آئین میں ترمیم کرلی اور مقبوضہ وادی کو باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کا درجہ دے دیا جس کے بعد کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی مزید تیز ہوگئی۔

اس بھارتی بدنیتی کے نتیجہ میں ہی پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگوں کی نوبت آئی جبکہ 71ء کی جنگ میں بھارت اپنے عسکری جنونی ونگ مکتی باہنی کی مدد سے مشرقی پاکستان میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کرکے سقوط ڈھاکہ کی نوبت لے آیا اور پاکستان کے متعدد سرحدی علاقوں پر قبضہ کرکے اسکے 90 ہزار سے زائد فوجیوں اور سویلینز کو جنگی قیدی بنا کر بھارت کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا، جس کے بعد بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا اور 1974ء میں اس نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سلامتی ہی نہیں، علاقائی امن و استحکام کو بھی خطرے میں ڈالا۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے خود کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے ہمکنار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی مذموم عزائم کی بنیاد پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور جرمنی میں مقیم پاکستان کے نوجوان ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر اے کیو خان کو ملک واپس بلوا کر انہیں یہ مشن سونپا جو مختلف ادوار میں تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہوا بالآخر 28 مئی 1998ء کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے ہاتھوں ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ ایٹمی دھماکے کرنے پر بھی پاکستان بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مجبور ہوا۔ اسکے باوجود امریکہ نے بھارتی ایماء پر پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں لگوا دیں مگر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت عالمی دباؤ کے باوجود دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے پرعزم رہی۔

پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کے باعث ہی اسکے ازلی مکار دشمن بھارت کو اس پر دوبارہ جنگی جارحیت مسلط کرنے کی جرأت نہیں ہوئی، مگر اس نے اپنی بدنیتی کے تحت پانی سمیت دوسرے محاذوں پر بھی پاکستان کو زچ کرنے کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے جبکہ اس نے قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد ہی کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا تھا جو ہنوز برقرار ہے۔ کشمیری عوام نے اس بھارتی تسلط کیخلاف ہی اپنی آزادی کی تحریک شروع کی جو درحقیقت کشمیریوں کے اپنے فیصلہ کے تحت کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک تھی۔ اس تحریک کے دوران کشمیری عوام نے بھارتی فوجوں کے مقابل سینے تان کر جانی قربانیاں پیش کرنے کی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں، مگر کبھی اپنے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دی۔ مقبوضہ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں جو چار سال قبل عالمی میڈیا کو جاری کی گئی اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں پیش کی گئی، بھارتی فوجوں کے ہاتھوں لاکھوں کشمیری باشندوں کی شہادتوں اور ہزاروں عفت مآب خواتین کی جنسی ہراسگی کی تصدیق کی گئی۔ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کے وفد نے بھی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے وہاں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہونیوالے کشمیریوں کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی، جبکہ امریکہ کے دو تعلیمی اداروں کی جانب سے بھی مقبوضہ کشمیر کا سروے کراکے بھارتی مظالم کیخلاف اپنی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کی جاچکی ہے۔

اسکے علاوہ پاکستان اپنے اصولی موقف کے تحت کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتے ہوئے گاہے بگاہے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر کشمیریوں کا کیس پیش کرتا رہتا ہے اور اس موقف کے تحت ہی وہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ کھڑا ہے اور انکی دامے، درمے، سخنے معاونت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتا۔ اس تناظر میں پاکستان یواین جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں کشمیریوں کا موقف شدت کے ساتھ پیش کرتا اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس وقت چونکہ بی جے پی کے ہندو انتہاء پسند لیڈر نریندر مودی بھارتی وزیراعظم ہیں جو سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونیوالی مکتی باہمی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی حصہ لیتے رہے ہیں اس لئے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی خاکم بدہن ختم کرنا انہوں نے اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا ہوا ہے اور اس مقصد کے تحت ہی جہاں مودی سرکار نے کنٹرول لائن پر پاک بھارت سرحدی کشیدگی بڑھائی ہے وہیں اس نے کشمیری عوام کی آواز بند کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں ہر ہتھکنڈے کے ذریعے مظالم کا سلسلہ بھی دراز کیا ہوا ہے جس کا بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان کشمیری ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں اور انہوں نے اقوام عالم میں سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی مظالم بے نقاب کرنے کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔ چنانچہ مودی سرکار کے اقتدار کے چار سالوں میں اب تک سینکڑوں کشمیری نوجوان شہید اور ہزاروں مستقل اندھے اور اپاہج ہوچکے ہیں مگر انکے بھارتی تسلط سے آزادی کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔

آج کشمیریوں کی جدوجہد جس نہج پر پہنچ چکی ہے، اس میں کامیابی ان کا مقدر بنی نظر آرہی ہے اور یہی وہ صورتحال ہے جو بھارتی سول اور عسکری قیادتوں کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے، جنہوں نے زچ ہو کر پاکستان کیخلاف بھی اپنے سارے محاذ کھول رکھے ہیں اور اسکی سلامتی اور خودمختاری کو کھلم کھلا چیلنج کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کیلئے یہ صورتحال اور بھی پریشان کن ہے کہ اسکے مظالم کا کوئی بھی ہتھکنڈہ کشمیری عوام کے جذبے ماند کر سکا نہ اسکی سرجیکل سٹرائیکس سمیت کوئی گیدڑ بھبکی پاکستان کو اپنی خودمختاری کے تحفظ کی راہ سے ہٹا سکی ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیں جنگی جرائم سے بھی بڑھ کر مظالم کی داستانیں رقم کررہی ہیں، جہاں گزشتہ ایک مہینے سے جاری کشمیریوں کے قتل عام میں دوسو سے زائد بے گناہ کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں کشمیری بشمول خواتین اور بچے خون میں لت زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے اقوام عالم کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ بھارتی فوجوں نے گزشتہ دنوں بھی مقبوضہ کشمیر کے علاقے بارہمولا میں بے دریغ فائرنگ کرکے مزید چھ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان بھارتی مظالم کی آزادانہ تحقیقات کا تقاضا کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کی تمام حریت قیادت کو گرفتار کرکے مقبوضہ وادی میں عملاً کرفیو نافذ کیا ہوا ہے اسکے باوجود وہ کشمیریوں کی آواز دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

دفتر خارجہ پاکستان نے بھی اسی تناظر میں اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت سے گھبراتا ہے نہ ہی وہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر کسی کا دباؤ قبول کریگا۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی سرکار نے اپنی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحت آج پاکستان کی سلامتی ہی نہیں، پورے علاقے اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کر رکھے ہیں۔ آرمی چیف نے اگلے مورچوں کا دورہ کرکے جہاں پاکستان کے جوانوں اور افسران کے حوصلے بڑھائے وہیں انہوں نے اقوام عالم اور بھارت کو بھی ٹھوس پیغام پہنچایا کہ پاکستان اپنے دفاع کے تقاضوں کے غافل ہرگز نہیں، اگر بھارت نے اس پر کسی قسم کی جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسے سخت ہزیمت اٹھانا پڑیگی۔ یہ درحقیقت عالمی قیادتوں کیلئے بھی پیغام ہے کہ وہ بھارت کے جنونی عزائم کے آگے بند باندھ کر اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو برباد ہونے سے روکیں۔ پاکستان کی بہادر، جری اور غیور افواج اسکی سلامتی پر بہرصورت کوئی حرف نہیں آنے دیں گی۔

بھارت سرکار کی لہو کی پیاس وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہے، جس بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی شہادتوں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے، پہلے بھارتی فوج کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑتی اور آنسو گیس برساتی تھی، پھر مظالم میں اضافہ ہوا اور بھارتی فوج نے کشمیریوں پر آنسو گیس کے ساتھ لاٹھی چارج اور فائرنگ بھی شروع کردی، جس میں ایک آدھ کشمیری شہید ہوجاتا پھر برھان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جب نوجوانوں نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی کمان سنبھالی تو بھارتی فوج نے مظالم میں اضافہ کرتے ہوئے مظاہرین میں شامل بچوں اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا, جس سے سینکڑوں بچے اور جوان اپنی بینائی سے محروم ہیں۔ پیلٹ گنوں کا استعمال بھی غیرقانونی ہے، پیلٹ گنیں اسرائیل کی اختراع ہیں لیکن اسرائیل نے بھی ان گنوں کا فلسطینیوں پر استعمال ترک کردیا تھا، بہرحال وادیٔ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے اشتعال اور غیر انسانی مظالم میں اضافہ ہوتا گیا اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا اور اس میں پیش رفت یہ ہوئی کہ بھارتی فوجوں نے گولہ باری میں ہماری شہری آبادی کو ہدف بنانا شروع کردیا، جس میں شہریوں کی شہادتیں شروع ہوگئیں۔

ادھر وادیٔ کشمیر میں بھارتی فوجوں نے وطیرہ بنا لیا کہ گھر گھر تلاشی روز کا معمول بنالی جس میں وہ کبھی کسی گھر کو بارود سے اڑا دیتے اور کبھی بلا کسی ثبوت اور مقدمے کے خود ہی کسی کشمیری جوان کو دہشت گرد قرار دیتے، خود ہی سزائے موت سناتے اور پھر جلاد بن کر خود ہی اس کو گولی مار کر شہید کردیتے، ماورائے عدالت قتل کی غیر قانونی وارداتوں میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک ہی روز 9 کشمیریوں کو شہید کردیا گیا، ایک گھر کو بارود لگا کر دھماکے سے تباہ کردیا اور گولیاں برسا کر کئی کشمیریوں کو شہید کردیا، جب بھارت سرکار ایسی کارروائیاں کرتے وقت وادی میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس بند کردیتی ہے، یعنی وادی کشمیر کا پوری دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے، اصولی طور پر جب ذرائع ابلاغ کا دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے، اسی وقت پوری عالمی برادری کو اس پر نوٹس لیتے ہوئے وہاں اپنی ٹیمیں بھجوانی چاہئیں جو دیکھیں کہ ذرائع ابلاغ کا رابطہ اتفاقاً کٹا ہے یا جان بوجھ کر کاٹا گیا ہے، کسی ریاست کا اس طرح پوری دنیا سے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا رابطہ کٹ جانا عالمی برادری اور خاص طورپر اقوام متحدہ کیلئے قابل توجہ ہونا چاہئے۔

تنازعۂ کشمیر کے حل کیلئے خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جون 1949ء کو قرارداد منظور کی ہو، اور جب اس قرارداد کو منظور کئے ہوئے 69 سال گزر چکے ہوں اور بھارت اس پر عمل کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اقوام متحدہ کو جنوبی ایشیا کو کسی خوف ناک اور تباہ کُن جنگ سے تحفظ دینے کیلئے از خود اس قرارداد کو اقوام متحدہ کی چیپٹر کی شق سات کے تحت دوبارہ سے منظور کرنی چاہئے، کیونکہ شق سات کے تحت منظور کی جانے والی قرارداد پر اگر فریقین عمل نہ کریں تو اقوام متحدہ عمل سے اجتناب کرنے والے ملک کیخلاف طاقت کا استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے، لہذا اب اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قرارداد پر عمل کرائے کیونکہ پاکستان اگر زور دے گا یا دبائو ڈالے گا تو خطے میں ایسی تباہ کُن جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے، جو پُوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو، لہذا اقوام متحدہ کو چاہئے کہ امن کی فضا برقرار رکھنے اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کیلئے آگے بڑھے اور اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button