مقالہ جات

تبدیلی کے بعد پہلا مہان

شیعت نیوز: نئی حکومت کے آنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ ہمسائیہ و برادر اسلامی ملک ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف کا تھا ۔ جواد ظریف نے نہ صرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی بلکہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف سے بھی ملاقات کی ۔گرچہ کہا جاتا ہے کہ اس دورے کا پہلے سے کوئی ایجنڈا طے نہیں تھا لیکن ان ملاقاتوں کےکیا موضوعات ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے ۔ایک وقفے کے بعد دونوں ہمسائیوں میں تعلقات کی سطح ہر گذرتا دن بلند ہوتی جارہی ہے طرفین میں نہ صرف سویلین بلکہ ملٹری وفود کا بھی اعلی سطح پر تبادلہ ہورہا ہے کہ جس کے پچھے خطے کی مجموعی صورتحال ہےکہ جس میں اہم ایک ایشو افغانستان میں ٹھکانے بناتی ہوئی دہشتگرد تنظیم داعش ہے اور اس خطے میں امریکی پالیسی سے عبارت ہے ۔

موجودہ صورتحال میں امریکہ کا رویہ ایک طرف جہاں ایران کیخلاف مزید جارحانہ ہوتاجارہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کیخلاف بھی امریکی لہجہ اور عمل دونوں میں بہت فرق آچکا ہے ۔طرفین روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کی پاسداری چاہتے ہیں ۔نئی حکومت کی اب تک کی پالیسی سے یہ بات واضح ہے کہ وہ ایران کو لیکر امریکی دباو کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ویسے بھی نئی حکومت کے ویژن کے خدوخال اور عسکری قیادت میں ا سوقت امریکہ کو شدید تحفظات موجود ہیں ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نےایران پر لگائی گئی نئی پابندیوں کو لیکر مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں ایران کے ساتھ ہے‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’شاہ محمود قریشی نے امید کا اظہار کیا ہے کہ جوہری معاہدے میں شامل دیگر فریق اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نمٹائیں گے کیونکہ عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے نے کئی مرتبہ ایران کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی تصدیق کی ہے‘‘
اگلے ماہ ایران پر مزید پابندیاں لگنے جارہی ہے ہیں اور ان پابندیوں کے دباو سے بچاو کے لئے ایران چھوٹے اور بڑے دونوں آپشنز کو استعمال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان سے بارڈر ٹریڈ میں مزید اضافہ بھی شامل ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ صحافیوں کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات کے دوران انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ حکومت امریکی بے جا قسم کے مطالبات کو نہیں مانے گی ۔پاکستان کو انرجی کے سیکٹر میں موجود کمی کو ایران بڑی آسانی کے ساتھ پوری کر سکتا ہے اور طرفین میں تجارت کا حجم مزید بڑھ سکتا ہے کہ جس کی ضرورت اس وقت دونوں ملکوں کو ہے ۔موجودہ ایرانی وزیر خارجہ کا سن 2013اپنا عہدہ سنبھالنے سے لیکر اب تک پاکستان کا یہ آٹھواں دورہ ہے ۔

تجزیہ وتحلیل : حسین عابد

متعلقہ مضامین

Back to top button