پاکستان

لاپتہ انجینئر ممتاز حسین کی بیٹی کا عمران خان کے نام خط

محترم عمران خان صاحب
آپ کی تقریر ایک قسم کی اُمید تھی، جو تمام پاکستانیوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈال گئی . آپ نے اس تقریر میں بنیادی مسائل کی طرف اشارہ کرا۔ جو اس ملک کو ایک طویل مدت سے دو چار ہیں، لیکن وہاں ایک ایسا مسئلہ تھا جو آپ کی ترجیحات کی فہرست سے محروم تھا. اس مسئلے کا شکار ہونے کے باوجود، میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ کے گوش گزار کروں تا کہ آپ اس طرف متوجہ ہوں۔

میرے والد، سید ممتاز حسین، پاکستان کے شہری، 23 جنوری، 2018 کے بعد سے لا پتہ ہو چکے ہیں.
آپ کی تقریر میں آپ نے ذکر کیا کہ آپ بیوہ اور یتیموں کے لئے خدمات دے گے. آپ یقین کریں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم یتیم ہیں یا نہیں ؟ ہماری ماں بیوہ بن چکی ہے.؟
ہاں مگر ابھی تک ہم اپنی زندگیوں کو بیوہ اور یتیموں کے طور پر زندہ رہتے ہوئے گزار رہے ہیں. لیکن، ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے باپ ابھی زندہ ہیں.
آپ نے یہ بھی کہا کہ آپ کو اس بات کو یقینی بنائے گے کہ عدالت ایک سال کے اندر تمام شہری مقدمات کو حل کرے. یہ آپ کے نوٹس میں لانے کے لئے ہے کہ ہمارے والد صاحب کو لاپتہ ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی. سات ماہ ہوگئے ہیں، کیس پر 7 ویں سماعت کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور اب بھی تک نا تو یہ پتہ چلا ہے کہ کس جگہ پر ہیں ہمارے والد ؟
جب آپ نے ذکر کیا کہ صرف 7 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو براہ مہربانی یاد رکھیں کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے. وہ ہمیشہ ٹیکس کو وقت پر ادا کرتے تھے۔اور کبھی بھی اپنے ملک کے لئے ٹیکس ادا کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرتے تھے. وہ ایک محب وطن تھے جو اپنے بچوں کو اس ملک کی خدمت کرنے کے لئے سول سروس میں شامل ہونے کے خواہاں تھے. انہوں نے ایک مفت کلینک کی بنیاد پر غریبوں اور محتاجوں کی مُفت مدد کرنے کا ارادہ کیا. انہوں نے نے اردو زبان کی ترقی کے لئے، اردو زبان میں ایک سائنسی میگزین ‘ علم و حرفت’ بھی شروع کردیا تھا. اس دن سے جب وہ لاپتہ ہوگئے، بہت سے اسکولوں اور لائبریریوں کو اس سہولت سے محروم کردیا گیا ہے،اور دیہاتی علاقوں کے بچوں کو اپنی زبان میں سائنس سیکھنے کا موقع نہیں مل رہا.
اس کے علاوہ، جب آپ قومی قرض کو اتارنے کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ ہزاروں خاندان بھاری قرضوں کے نیچے کچل گئے ہیں کیونکہ ان کی روٹی کمانے والے غائب ہو جاتے ہے اور خاندان کو دیکھنے کے لئے کوئی بھی باقی نہیں ہے.
‘مدینہ منوارا’ میں، لوگ مسجد نبوی میں حضور پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا سکتے تھے اور ان کے ساتھ اپنے مسائل اور مُشکلات کو بتا سکتے تھے. اگر آپ واقعی مدینہ جیسی فلاحی ریاست تشکیل کرنے کے خواہاں ہیں تو پھر ہمارے اور ہمارے والدین اور اس ملک میں ہزاروں افراد کی فریاد کو سنیں اور اس پر عمل کریں.
آپ کی مخلص
انجینئر ممتاز کی بیٹی
رابطہ: 03468222777
https://web.facebook.com/RecoverEngineerMumtaz

متعلقہ مضامین

Back to top button