مقالہ جات

حزب اللہ اور اتحادیوں نےیہاں بھی میدان مارلیا ۔

یوں لگ رہا تھا کہ پوری دنیا سانس روکے لبنان کے انتخابات پر نظریں گاڑے تھی سب اس سوچ میں تھے کہ بلیٹ بکسوں سے کیا برآمد ہونے والا ہے ؟
کیا اس میدان میں مزاحمتی سوچ کو شکست دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟کیا عسکری میدانوں میں اپنےمقابل کسی کو پل بھر ٹکنے نہ دینے والی جماعت حزب اللہ اور اس کےاتحادی سیاسی میدان میں بھی مد مقابل کومیدان چھوڑنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟
لبنان کی عوام کیا سوچتی ہے ؟کیا یہ سچ ہے کہ مزاحمتی بلاک کی پالیسی کہ جس کے بارے میں اندرونی اور بیرونی شور یہ ہے کہ وہ ایک جارحانہ انداز رکھتے ہیں ایک سچ ہے یا صرف پروپگنڈہ ؟
کیا شام میں داعش کیخلاف جنگ میں مزاحمتی جماعت کا تعاون ملک میں اس کی مقبولیت کو کم کرگیا ہے ؟جیسا کہ بین الاقوامی میڈیا ہاوسزصبح شام یہ یقین دلانا چاہتے ہیں ؟
کیا لبنان کی عوام بھی باقی امیر عرب ملکوں کی طرح اسرائیل سے مقابلے اور اس کے آگے ڈٹ جانے کے بجائے ’’بنائے رکھنے‘‘ اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی چاہتے ہیں؟
یا پھر ان کو حزب اللہ کی پالیسی اور حکمت عملی پر بھروسہ ہے جو کہتی غاصب اور قابض کے ساتھ نہ بنایا جاسکتا ہے نہ جیا جاسکتا ہے ؟
حسن نصر اللہ کہتے آئے ہیں کہ بھروسہ رکھو ۔۔ہم آپ سے کامیابی کا وعدہ کرتے ہیں ۔۔ اور وہ ثابت کرچکا ہے کہ وعدے کے پکے ہیں
تو کیا نصر اللہ کے ان وعدوں پر لبنان کی مختلف الخیال و عقیدہ عوام بھروسہ بھی کرتی ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعت عوامی اجتماعات تو کرسکتی ہے لیکن ووٹ نہیں لے سکتی ۔۔۔تو کیا لبنان کی عوام بھی ایسا سوچتی ہے ؟؟؟
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ تمام تر اندازوں تجزیوں پر پانی پھیرتے ہوئے عوام نے ’’امید اور وفاداری ‘‘کو’’ مزاحمت اور قربانی‘‘ کو اپنے اعتماد کا پورا پورا ثبوت دیاہے ۔
انتخابات کی کچھ تفصیل
تازہ ترین غیر سرکاری نتائج کے مطابق
الف:8 مارچ الائنس (حزب اللہ اور اس کے اتحادی)۔50سیٹیں
اسرائیلی ان نتائج کو دیکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ لبنان اور حزب اللہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ نے لبنانی انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پورا لبنان حزب اللہ ہے اور اس پارٹی اور حکومت میں اب کوئی فرق نہیں رہا اور اسرائیل کو بھی اس جماعت اور حکومت کو کسی قسم کا فرق نہیں دیکھنا چاہیے ۔
لبنان کی اگلی پارلیمان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادی نصف سے بھی زیادہ سیٹوں پر ہونگے ۔
اب تک غیر رسمی نتائج کے مطابق حزب اللہ اور اتحادیوں کے پاس 128میں سے 67سیٹیں موجود ہیں جبکہ دیگرجیتنے والے تمام امیدوار یا سیاسی گروہ میں بھی ایسی امیدوار ہیں جو مزاحمتی بلاک کے ساتھ رویہ اور تعاون مخاصمانہ انداز نہیں رکھتے ۔
جہاں ایک جانب فیوچر پارٹی اور دیگرگروہوں کا گڑھ سمجھے جانے والے دارالحکومت بیروت میں حزب اللہ الائنس نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے تو خود اپنے حلقوں جیسے بعلبک اور ھرمل میں دس میں سے دو سیٹوں کو کھو بھی دیا ہے ان دوسیٹوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایک قسم کی ایڈجسمنٹ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر یہ حلقہ مزاحمتی بلاک سے تعلق رکھتا ہے ۔
ب:14 مارچ (فیوچر پارٹی اور اس کے اتحادی) 35 نشستیں۔جبکہ دارالحکومت بیروت میں اس جماعت کو بری طرح شکست کا سامنا رہا ہے اور یہ اپنی چھ سیٹوں کو کھو بیٹھی اور 11 میں سے صرف 5 سیٹوں کو بچاسکی ،سن 2000کے الیکشن میں اس جماعت اور اتحادیوں کے پاس 19سیٹیں تھیں
ایسی ہی صورتحال اس الائنس کو لبنان کے دوسرا دارالحکومت کہلانے والے شہر طرابلس میں بھی دیکھائی دیتی ہیں جہاں وہ 3سیٹیں حاصل کرپائے ۔
واضح رہے کہ یہ اتحادی سعودی فرانسی امریکی حمایت یافتہ اتحاد بھی کہلاتا ہے
ج:فری پیٹریاٹک موومنٹ۔(مائیکل عوان کی جماعت ) 20 سیٹیں
مائیکل عون مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے زبردست حامی سمجھے جاتے ہیں
د:پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی(ولید جنبلاط اور دُرزی فرقہ کی جماعت) 10 سیٹیں
لبنان میں حکومتی مناصب مذہبی بنیادوں پر تقسیم شدہ ہوا کرتے ہیں کہ جس میں وزیر اعظم کو سنی مسلمانوں جبکہ اسپیکر شیعہ مسلمانوں اور صدر کو عیسائی مذہب سے منتخب کیا جاتا ہے ۔
حزب اللہ ،امل پارٹی اور فری پیٹریاٹک موومنٹ درحقیقت پارلیمان میں ایک ہی روحجان اور سوچ کو تشکیل دیتے ہیں جن کی موجودہ پوزیشن 53سیٹوں کے ساتھ موجود ہے جبکہ صدر اور اسپیکر کی کے مناصب بھی اسی اتحاد کے پاس موجود ہے۔
لیکن حالیہ الیکشن کے نتائج سے واضح ہورہا ہے کہ اب اس روحجان کی پوزیشن پہلےنمبر پر ہوگی جبکہ سب سے زیادہ سیٹیں بھی حزب اللہ کے پاس ہی ہونگی ۔
دوسری جانب اگر پڑنے والے ووٹوں کی صورتحال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بھی واضح ہے کہ مزاحمتی بلاک اور سوچ نے پورے لبنان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں ۔
واضح رہے کہ پیش شدہ نتائج غیر رسمی اور غیر حتمی ہیں کیونکہ ابھی تک لبنان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان نہیں ہوا ۔
واضح رہے کہ کامیاب امیدواروں میں ایک ایسا امیدوار بھی ہے جیسے شام کے صدر بشار الاسد کا خاص دوست سمجھا جاتا ہے
لبنانی انتخابات پر مزید تجزیہ اور تبصرہ جاری رہے گا ۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button